اتوار، 18 اکتوبر، 2015

واقعات کربلا کا تحقیقی جائزہ


نحمدہ ونصلی ونسلم علیٰ رسولہ الکریم
اما بعد
بسمﷲالرحمان الرحیم
اہل فہم و تدبر اس امر سے بخوبی واقف ہیں کہ اسلامی سال کی ابتدا بھی قربانی سے ہے اور انتہا بھی قربانی سے عبارت ہے تاہم یہ امر بھی مسلم ہے کہ تاریخ حق و باطل میں خیر و شر کے لاکھوں معرکے برپا ہوئے ہزاروں مجاہدین اسلام نے جام شہادت نوش کرنے کا شرف حاصل کیا بالخصوص اسلام کا اولیں دور بیشمار و عظیم الشان شہادتوں سے پُر ہے بڑے سے بڑا دانشور بھی اس حقیقت کو جھٹلا نہیں سکتا کہ آج تک کسی اور شہادت کو اس قدر شہرت نصیب نہیں ہوئی جتنی شہرت و مقبولیت امام عالی مقام امام حسین رضیﷲعنہ کی شہادت کو حاصل ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت سیدنا حسین رضیﷲعنہ نے عزیمت پر عمل کرکے یزیدی ماحول کی تاریکیوں میں اجالا کردیا اور ایک مینارۂ نور بنایا حو بھٹکنے والوں کی صدیوں تک راہنمائی کرتا رہے گا یہی وجہ ہے کہ حضرت امام حسین رضیﷲعنہ نے معرکۂ حق و باطل (کربلا) میں اپنی جان سمیت اپنے خانوادے کو قربان کرنے کا انعام و صلہ ﷲ اور اس کے حبیب ﷺ کی بارگاہ سے پہلے ہی حاصل کرلیا تھا حالانکہ عام دستور یہ ہے کہ پہلے آزمائش سے دوچار کیا جاتا ہے اور پھر محنت کے مطابق اس آزمائش کا بدلا دیا جاتا ہے مگر قربان جائیں حضرت سیدنا حسین رضیﷲعنہ کی عظمت و شان پر کہ انعام کی تخصیص و نامزدگی امتحان و آزمائش سے کئی عرصہ پہلے ہی کردی گئی
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا
وان الحسن والحسین سیدا شباب اہل الجنتہ
حسن اور حسین رضیﷲعنھما دونوں جنّتی جوانوں کے سردار ہیں
ترمذی شریف , ابواب المناقب
جنتی جوانوں کی سرداری حق پر ڈٹے رہنے کا انعام ہی تو تھا جو معرکۂ حق و باطل سے قبل ہی ارشاد فرمادیا گیا تھا
ان سب باتوں کے علاوہ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جہاں شہادت نواسۂ رسول کو شہرت اور کمال پزیرائی ملی وہاں تاریخ کی روایتوں پر اندھا اعتماد کی گیا اور ایسی روایتوں کو منظر عام پر لایا گیا جن سے کربلا میں موجود مجاہدین اسلام کی بیچارگی اور ہر طرح سے بے بسی و مجبوری واضح ہوتی ہے حالانکہ اصل معاملہ اس کے برعکس ہے
محققین جانتے ہیں مذہبی عقائد و احکام میں تاریخی روایتوں کا کوئی عمل دخل نہیں بایں وجہ کے مؤرخین کا طریقہ کار غیر محتاط رہا ہے ان کے ہاں راوی کا ثقہ ہونا نہ ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا وہ نہیں دیکھتے کہ راوی کا مذہب کیا ہے راوی کے اوصاف کیا ہیں وغیرہ
مؤرخین کے ہاں قواعد و ضوابط کا وہ التزام و اہتمام نہیں کیا جاتا جو محدّثین کے ہاں نہایت اہم و ضروری ہیں اسی لئے تاریخی روایات کو مذہبی لحاظ سے دلیل نہیں بنایا جاسکتا
راقم کے ناقص مطالعہ کے مطابق واقعہ کربلا میں کیا ہوا کیا نہیں اس بارے خاندان نبوت کی جو مستورات کربلا میں موجود تھیں نہ تو انہوں نے کچھ بتایا اور نہ ہی یزیدی تلوار سے محفوظ رہنے والے سیدنا علی اوسط زین العابدین رضیﷲعنہ سے اس بارے کوئی معتبر روایت ملتی ہے جتنی روایات ہیں تقریباً سب کی سب ان لشکریوں سے مروی ہیں جو یزیدی لشکر کا حصّہ تھے ان پر اعتبار کرکے ایسی روایات جو حقیقت حال کے مخالف ہوں قابل بیان سمجھنا اہل علم کے شایان شاں نہیں مثلاً
میدان کربلا میں پہنچ کر امام پاک کا تین شرطیں ارشاد فرمانا 1 کہ جہاں سے آیا ہوں وہیں جانے دو
2 اسلامی ممالک میں سے کسی ملک کی طرف جانے دو
3 یا پھر زمین میں کسی طرف نکل جاؤں
تاریخ طبری جلد چہارم صفحہ 200 مطبوعہ نفیس اکیڈمی کراچی
یہ روایت حقیقت کے خلاف ہے کیونکہ رسول ﷲ ﷺ کی زندگی  ہی میں یہ بات منزل تشہیر پر پہنچ چکی تھی کہ امام حسین رضیﷲعنہ کو شہید کیا جائے گا اور آپ کی شہادت کربلا میں وقوع پذیر ہوگی
دلائل النبوہ ابونعیم صفحہ511 مطبوعہ ضیآءالقران لاہور
خصائص کبریٰ حصہ دوم صفحہ200 مطبوعہ شبیر برادرز لاہور
دلائل النبوہ للبیہقی جلد سوم صفحہ 299 مطبوعہ دارالاشاعت کراچی
الصواعق المحرقہ صفحہ447 مطبوعہ شبیر برادرز لاہور
سرّ الشہادتین صفحہ 80 مطبوعہ مکتبہ حامدیہ لاہور
یہاں تک شہرت تھی کہ حضرت شیر خدا رضیﷲعنہ نے کربلا کی سرزمین پر نشانات بھی لگائے اور ساتھیوں کو فرمایا یہاں ان کی سورایاں بیٹھیں گی یہاں ان کے کجاوے اتریں گے اور یہاں ان کا خون بہے گا وہ آل محمد ﷺ کے کچھ لوگ ہوں گے جو اس میدان میں قتل کئے جائیں گے
دلائل النبوّہ ابونعیم صفحہ532 مطبوعہ ضیآءالقرآن لاہور
ان معتبر روایات کے باوجود تاریخی روایات پر اعتماد کرتے ہوئے یوں کہنا کہ امام پاک نے کربلا پہنچ کر ادھر ادھر  جانے کی درخواست کی سراسر غلط ہے
اسی طرح شہزادہ علی اصغر رضیﷲعنہ کو یزیدیوں کے سامنے لے جا کر امام عالی مقام کے پانی مانگنے کا فرضی قصہ "خاک کربلا" جیسی کتب میں بغیر حوالے کے درج ہے بلا تحقیق اور غور و خوض کے بنا ہی عوام الناس میں بیان کیا جاتا ہے جب کہ یہ واقعہ امام کی شایان شاں قطعاً نہیں
کیونکہ امام اگر دعا کرتے تو بارش نازل ہوجاتی جیسا کہ برادر اعلیٰحضرت مولانا حسن رضا خان برکاتی رحمتہﷲعلیہ نے "الکامل فی التاریخ" کے حوالے سے نقل کیا کہ ایک یزیدی بارے امام نے دعا کی کہ ﷲ تجھ کو پیاسا قتل کرے وہ فوراً پیاس میں مبتلا ہوا پانی پیتا پیاس نہ بجھتی یہاں تک کہ پیاسا ہی مرگیا

آئینۂ قیامت صفحہ70 مطبوعہ مکتبہ قادری اینڈ ورائٹی ہاؤس

اسی طرح کربلا میں موجود مستورات کی بے پردگی کی کہانیاں بھی عوام میں مشہور ہیں کہ (معاذﷲ) ان کی ردائیں چھین لی گئیں کپڑے پھاڑ دیئے گئے (العیاذ باﷲ)
مشہور تفضیلی صائم چشتی صاحب بھی اس معاملے میں شیعہ حضرات کے ہمنوا ہیں وہ اپنے ایک کلام میں کہتے ہیں

"سر سے چادر چھن گئی لیکن نگاہ اٹھی نہیں"
"حضرت زینب تمہاری پردہ داری کو سلام"

یعنی چادر وغیرہ اصل پردہ نہیں بلکہ اصل پردہ تو نگاہ کا ہے اسی لئے کہا کہ اگرچہ سیدہ کے سر سے چادر چھن گئی تھی مگر نگاہ والا پردہ تو موجود تھا نا
حالانکہ ایسا کچھ نہیں ہوا
ابن کثیر نے اس وضعی قصے کو روافض کا الزام کہا ہے

البدایہ والنہایہ جلد چہارم صفحہ525 مطبوعہ دارالاشاعت کراچی

اس کے علاوہ مشہور شیعہ محدث ملا محمد باقر مجلسی نے سیدہ زینب رضیﷲعنہا کی پردہ نشینی کا اقرار کیا ہے

بحارالانوار حصہ دوم صفحہ 308 مطبوعہ محفوظ بک ایجنسی کراچی

الغرض امام عالی مقام اور آپ کے جاں نثار ساتھی مجبور ہرگز نہ تھے بلکہ راضی بر رضائے خدا تھے اور ثابت قدمی کے ساتھ کامیاب ہوئے
انس بن مالک رضیﷲعنہ فرماتے ہیں جب حرام بن ملحان کو بیر معونہ کی لڑائی میں نیزہ لگا تو انہوں نے خون اپنے چہرے اور سر پر چھڑکا اور کہا رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا

بخاری شریف , کتاب المغازی , باب غزوہ بیئر معونہ

معلوم ہوا شہید مرتبۂ شہادت پاکر کامیاب ہوتا ہے اور بعینہ امام عالی مقام اور آپ کے جاں نثار رفقاء میدان کربلا میں جام شہادت نوش فرماتے ہوئے کامیابی و کامرانی سے سرفراز ہوئے لہذا ہمیں وہ روایات بیان کرنی چاہئیں جن سے ان کی عظمت و شان کا مظاہرہ ہو اور ایسی روایات سے گریز کرنا چاہیئے جن کا حقیقت سے دور دور کا تعلق نہیں اور ایسی روایات بیان کرنا بھی ہرگز مناسب نہیں جن سے امام پاک کی بیچارگی اور لاوارثی ظاہر ہوتی ہو

اس شہید بلا شاہ گلگوں قبا
بیکس دشت غربت پہ لاکھوں سلام
(کلام اعلیٰ حضرتؒ)
آخر میں بے حد مشکور ہوں ماہنامہ بہار اسلام کے مدیر اعلیٰ محسن اہلسنت مفتی عرفان قادری صاحب زید مجدہ کا کہ جنہوں نے فقیر کو اس قابل سمجھا
فقیر دعاگو ہے ﷲ تعالیٰ اپنے حبیب ﷺ کے طفیل ہم سب کو خلوص نیت عطا فرمائے آمین
العارض
غلام حسین نقشبندی
خادم جامعہ امینیہ رضویہ شیخ کالونی فیصل آباد
0300 7650062