منگل، 8 نومبر، 2016

بدعت بدعت کرنے والوں کو دعوت فکر

قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے!

* يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ وَإِنْ تَسْأَلُوا عَنْهَا حِينَ يُنَزَّلُ الْقُرْآنُ تُبْدَ لَكُمْ عَفَا اللَّهُ عَنْهَا وَاللَّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ *
{ سورۂ المائدہ آیت ١٠١ پارہ ٧ }

اے ایمان والو مت پوچھو ایسی باتیں کہ اگر تم پر کھولی جاویں تو تم کو بری لگیں اور اگر پوچھو گے یہ باتیں ایسے وقت میں کہ قرآن نازل ہورہا ہے تو تم پر ظاہر کردی جاویں گی اللہ نے ان سے در گزر کی ہے اور اللہ بخشنے والا تحمل والا ہے.

{ ترجمۂ محمود الحسن دیوبندی }

بانی جماعت اسلامی مودودی دیوبندی لکھتے ہیں!
___________________________________________________
نبیﷺ سے بعض لوگ عجیب عجیب قسم کے فضول سوالات کیا کرتے تھے جن کی نہ دین کے کسی معاملہ میں ضرورت ہوتی تھی اور نہ دنیا ہی کے کسی معاملہ میں۔
مثلاً ایک صاحب بھرے مجمع میں آپ سے پوچھ بیٹھے کہ میرا اصلی باپ کون ہے؟ اسی طرح بعض لوگ احکام شرع میں غیر ضروری پوچھ گچھ کیا کرتے تھے اور خوامخواہ پوچھ پوچھ کر ایسی چیزوں کا تعین کرانا چاہتے تھے جنہیں شارع نے مصلحتاً غیر معین رکھا ہے۔
مثلاً قرآن میں مجملاً یہ حکم دیا گیا تھا کہ حج تم پر فرض کیا گیا ہے ایک صاحب نے حکم سنتے ہی نبیﷺ سے دریافت کیا
کیا ہر سال حج فرض کیا گیا ہے؟
آپ نے کچھ جواب نہ دیا انہوں نے پھر پوچھا آپ پھر خاموش ہوگئے
تیسری مرتبہ پوچھنے پر آپ نے فرمایا
تم پر افسوس ہے اگر میری زبان سے ہاں نکل جائے تو حج ہر سال فرض قرار پا جائے پھر تم ہی لوگ اس کی پیروی نہ کر سکو گے اور نہ فرمانی کرنے لگو گے۔
ایسے ہی لایعنی اور غیر ضروری سوالات سے اس آیت میں منع کیا گیا ہے۔
نبیﷺ خود بھی لوگوں کو کثرت سوال سے اور خوامخواہ ہر بات کی کھوج لگانے سے منع فرماتے رہتے تھے۔

چنانچہ حدیث میں ہے.
«إِنَّ أَعْظَمَ الْمُسْلِمِينَ فِي الْمُسْلِمِينَ جُرْمًا، مَنْ سَأَلَ عَنْ شَيْءٍ لَمْ يُحَرَّمْ عَلَى الْمُسْلِمِينَ، فَحُرِّمَ عَلَيْهِمْ مِنْ أَجْلِ مَسْأَلَتِهِ»

مسلمانوں کے حق میں سب سے بڑا مجرم وہ شخص ہے جس نے کسی ایسی چیز کے متعلق سوال چھیڑا جو لوگوں پر حرام نہ کی گئی تھی اور پھر محض اس کے سوال چھیڑنے کی بدولت وہ چیز ٹھہرائی گئی۔

ایک دوسری حدیث میں ہے!
" إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى فَرَضَ فَرَائِضَ فَلاَ تُضَيِّعُوهَا ، وَحَدَّ حُدُودًا فَلاَ تَعْتَدُوهَا ، وَحَرَّمَ أَشْيَاءَ فَلاَ تَنْتَهِكُوهَا ، وَسَكَتَ عَنْ أَشْيَاءَ رَحْمَةً بِكُمْ ، غَيْرَ نِسْيَانٍ ، فَلاَ تَبْحَثُوا عَنْهَا "

اللہ نے کچھ فرائض تم پر عائد کئے ہیں انہیں ضائع نہ کرو کچھ چیزوں کو حرام کیا ہے ان کے پاس نہ پھٹکو کچھ حدود مقرر کی ہیں ان سے تجاوز نہ کرو اور کچھ چیزوں کے متعلق خاموشی اختیار کی ہے بغیر اس کے کہ اسے بھول لاحق ہوئی ہو لہذا ان کی کھوج نہ لگاؤ۔

ان دونوں حدیثوں میں ایک اہم حقیقت پر متنبہ کیا گیا ہے جن امور کو شارع نے مجملاً بیان کیا ہے اور ان کی تفصیل نہیں بتائی یا جو احکام بر سبیل اجمال دیئے ہیں اور مقدار یا تعداد یا دوسرے تعینات کا ذکر نہیں کیا ہے ان میں اجمال اور عدمِ تفصیل کی وجہ یہ نہیں ہے کہ شارع سے بھول ہوگئی تفصیلات بتانی چاہیئے تھیں مگر نہ بتائیں۔
بلکہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ شارع ان امور کی تفصیلات کو محدود نہیں کرنا چاہتا اور احکام میں لوگوں کیلئے وسعت رکھنا چاہتا ہے۔

{ تفہیم القرآن جلد1 صفحہ507.508 }

حیران کن امر یہ ہے کہ جب اللہﷻ اور اس کے محبوبﷺ نے وسعت عطا فرما دی اور جب تک منع کا حکم نہ آئے ممانعت نہیں تو ںھر اس اصول اور ضابطہ کو ہم اہلسنت پر فتویٰ داغنے کے وقت مدنظر کیوں نہیں رکھا جاتا؟
محافل میلاد , ایصال ثواب کے جلسے  , کھانے پر قرآن پڑھنا . اذان کے اول آخر برکت کیلئے درود شریف پڑھنا وغیرہ معمولات اہلسنت کو بدعت کہتے وقت علماء دیوبند یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ جب تک ممانعت کا حکم نہ ہو ممانعت نہیں اور جس کام کے کرنے اور نہ کرنے کے متعلق اللہﷻ اور اس کے مکرم رسولﷺ خاموش ہوں وہ عمل جب شرعاً مباح ہے تو پھر شریعت کے اس قاعدے کو مانتے سے کونسی چیز مانع ہے جب کہ یہ اصول تو خود علماء دیوبند کو بھی مسلّم ہے جیسے کہ مودودی صاحب کا حوالہ گزرا اور اس سے پہلے شبیر احمد عثمانی صاحب کا حوالہ بھی گزر چکا.

اللہ کریم ہدایت نصیب فرمائے!
طالب دعا ; غلام حسین نقشبندی


پیر، 7 نومبر، 2016

(ہر چیز اصل میں جائز ہے)شبیر احمد عثمانی دیوبندی



قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے!

* يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ وَإِنْ تَسْأَلُوا عَنْهَا حِينَ يُنَزَّلُ الْقُرْآنُ تُبْدَ لَكُمْ عَفَا اللَّهُ عَنْهَا وَاللَّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ *
{ سورۂ المائدہ آیت ١٠١ پارہ ٧ }

اے ایمان والو مت پوچھو ایسی باتیں کہ اگر تم پر کھولی جاویں تو تم کو بری لگیں اور اگر پوچھو گے یہ باتیں ایسے وقت میں کہ قرآن نازل ہورہا ہے تو تم پر ظاہر کردی جاویں گی اللہ نے ان سے در گزر کی ہے اور اللہ بخشنے والا تحمل والا ہے.

{ ترجمۂ محمود الحسن دیوبندی }

دیوبندی عالم علامہ شبیر احمد عثمانی لکھتے ہیں !
___________________________________________________
پچھلے دو رکوع کا حاصل احکام دینیہ میں غلو اور تساہل سے روکنا تھا یعنی جو طیبات خدا نے حلال کی ہیں ان کو اپنے اوپر حرام مت ٹھہراؤ اور جو چیزیں خبیث و حرام ہیں خواہ وہ دائمی طور پر یا خاص احوال و اوقات میں ان سے پوری طرح اجتناب کرو۔
ان آیات میں تنبیہ فرما دی کہ جو چیزیں شارع نے تصریحاً بیان نہیں فرمائیں ان کے متعلق فصول اور دورازکار سوالات مت کیا کرو جس طرح تحلیل و تحریم کے سلسلہ میں شارع کا بیان موجب ہدایت و بصیرت ہے اس کا سکوت بھی ذریعہ رحمت و سہولت ہے۔
خدا نے جس چیز کو کمال حکمت و عدل سے حلال یا حرام کردیا وہ حلال یا حرام ہوگئی اور جس سے سکوت کیا اس میں گنجائش اور توسیع رہی۔
مجتہدین کو اجتہاد کا موقع ملا عمل کرنے والے اس کے فعل و ترک میں آزاد رہے اب اگر ایسی چیزوں کی نسبت خوامخواہ کھود کرید اور بحث و سوال کا دروازہ کھولا جائے گا بحالیکہ قرآن شریف نازل ہورہا ہے اور تشریح کا باب مفتوح ہے تو بہت ممکن ہے کہ سوالات کے جواب میں بعض ایسے احکام نازل ہو جائیں جن کے بعد تمہاری یہ آزادی اور گنجائشِ اجتہاد باقی نہ رہے۔
پھر سخت شرم کی بات ہوگی کہ جو چیز خود مانگ کر لی ہے اس کو نباہ نہ سکیں.

پھر آگے لکھتے ہیں!
یا تو مراد یہ ہے کہ ان اشیاء سے درگزر کی یعنی جب خدا نے ان کے متعلق کوئی حکم نہ دیا تو انسان ان کے بارے میں آزاد ہے خدا ایسی چیزوں پر گرفت نہ کرے گا۔
چنانچہ اسی سے بعض علماء اصول نے یہ مسئلہ نکالا ہے کہ اصل اشیاء میں اباحت ہے. (یعنی ہر چیز اصل میں جائز ہے)

{ تفسیر عثمانی جلد اوّل صفحہ٥٧٧ مطبوعہ دارالاشاعت کراچی }

معلوم ہوا کہ جب تک وحی نازل نہ ہو تو نہ کوئی چیز لازم ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی چیز منع
اور جن چیزوں کے متعلق شریعت مطہرہ نے حکم دیا ہے یا ترغیب دی ہے وہ فرض , واجب , سنت اور مستحب (علی حسب الحکم) قرار پاگئیں جن چیزوں کے متعلق شریعت مطہرہ نے ممانعت فرمائی یا ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا ہے وہ حرام , مکروہ تحریمی , مکروہ تنزیہی اور اسائت (علی حسب الحکم) قرار پاگئیں اور جن چیزوں کے متعلق شریعت مطہرہ نے سکوت فرمایا یعنی نہ حکم و ترغیب نہ ہی ممانعت و ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا وہ سب چیزیں بلاشبہ جائز ہیں!
(یعنی محافل میلاد شریف , ایصال ثواب کے جلسے , اذان سے قبل یا بعد درود و سلام , دعا بعد نماز جنازہ وغیرہ)

ماخوذ از
بدعت اور اس کی حقیقت
از امام المناظرین پروفیسر محمد سعید احمد اسعد صاحب دام ظلہ

طالب دعا ; غلام حسین نقشبندی