جمعہ، 5 اگست، 2016

نماز میں نبی کریمﷺ کو حاضر جان کر سلام کہنا


نواب صدیق حسن خاں بھوپالی (غیر مقلد) لکھتا ہے!
"حضورﷺ کی تخصیص اس لئے ہے کہ آپ کا نمازی پر بہت بڑا حق ہے اسی لئے نمازی خود پر سلام بھیجنے سے پہلے آپ علیہ السلام پر سلام عرض کرتا ہے
(السلام علیک ایھا النبی ورحمتہ اللہ وبرکاتہ)
بعد میں اپنے آپ پر (السلام علینا)
شب معراج اللہ نے اسی طرح محبوب کو سلام کہا تھا آنحضرتﷺ نے تشہد کی تعلیم میں امت کو وہی الفاظ سکھائے (تاکہ شب معراج کی رفعتوں کا منظر یاد رہے)
نیز آنحضرتﷺ ہمیشہ مومنوں کا نصب العین رہے ہیں اور عبادت گزاروں کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں تمام احوال میں اور تمام اوقات میں خصوصاً عبادت کی حالت میں نورانیت اور انکشاف میں پہلے سے اضافہ ہوتا ہے,
بعض عارفین قدس سرھم نے فرمایا ہے کہ نماز میں رسول اکرم شفیع اعظمﷺ کو اس لئے خطاب کرکے عرض کیا جاتا ہے کہ

حقیقت محمدیہ موجودات کے ذروں میں ممکنات کے ہرہر فرد میں جلوہ گر ہیں پس نبی کریمﷺ نمازیوں کے اندر موجود و حاضر ہیں

پس نمازی کو چاہیئے اس معنی و مفہوم سے آگاہ رہے اور سرکار دوعالمﷺ کی اس جلوہ گری سے غافل نہ ہو تاکہ انوار و قرب اسرار معرفت سے منور اور فیض یاب ہو۔

مسک الختام صفحہ 243
از نواب صدیق حسن خاں بھوپالیع

جمعرات، 4 اگست، 2016

عیسائی دوستوں کو دعوت فکر (2)

****** عیسائی دوستوں کو دعوت فکر ******

ازقلم:- امام المناظرین بحرالعلوم فاتح مناظرہ جھنگ اشرف العلماء علامہ "محمد اشرف سیالوی" صاحب رضی اللہ عنہ
=
غور کرنے سے ہر ادنیٰ سمجھ والا شخص یہ محسوس کرے گا کہ جس کے سبب سے زمین لعنتی ہوجائے وہ خود العیاذ باللہ لعنتی نہیں ہوگا؟
لازمی بات ہے کہ زمین کا اپنا کوئی قصور نہیں تھا صرف آدم علیہ السلام کے قدم پڑنے سے اس کا یہ حشر ہوا تو جس کے قدم لگنے سے زمین لعنتی ٹھہری اس کی اپنی ذات میں کس قدر عیوب و نقائص موجود ہوں گے اور وہ کس قدر لعنت اور بارگاہ خداوند سے دوری کا مستحق و مستوجب ہوگا؟
حالانکہ ان کو پیدا تو زمین کی آبادی کیلئے کیا گیا تھا اور اس میں اللہ تعالیٰ کی نیابت کے طور پر نفاذ احکام کیلئے جیسے کہ
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے!

واذقال ربک للملٰئکتہ انی جاعل فی الارض خلیفہ
سورہ بقرہ آیت ٣٠

اور جو اللہ تعالیٰ کا قائم مقام خلیفہ ہو وہ زمین کیلئے موجب لعنت کیسے ہوسکتا ہے؟

****** اسلامی نقطۂ نظر ******

اسلام و قرآن نے ان کے متعلق جو طریقہ اختیار فرمایا وہ انتہائی متوازن اور ان کے شایان شان ہے
اللہ تعالیٰ نے فرمایا

فنسی ولم نجدلہ عزما
سورہ طہ آیت ١١٥

"وہ بھول گئے اور ہم نے ان کے اندر اس حکم کی خلاف ورزی کا عزم اور پختہ ارادہ نہیں پایا تھا"
اور جو اجتہادی خطا سرزد ہوئی اس کے اثرات و ثمرات بطور "سببیت و مسببیت" جو بھی مرتب ہوئے جس طرح دوا پینے پر عادتاً مرتب ہوتے ہیں لیکن اس کا تدارک بھی کردیا گیا
قال تعالیٰ

فتلقی آدم من ربہ کلمات فتاب علیہ انہ ھو التواب الرحیم
سورہ بقرہ آیت ٣٧

"آدم علیہ السلام نے اپنے رب تعالیٰ سے چند کلمات سیکھے اور ان کے ساتھ باوگاہ خداوندی میں توبہ کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کرلی بیشک وہ توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے"

دی ہولی بائبل اور شان انبیاء میں گستاخیاں
صفحہ 09 مطبوعہ  اہل السنتہ پبلی کیشنز دینہ جہلم

یہ گستاخانہ عبارت موجودہ "بائبل" کے کلام خداوند ہونے پر سوالیہ نشان ہے (فافھم)

عیسائی دوستوں کو دعوت فکر

****** عیسائی دوستوں کو دعوت فکر ******

ازقلم:- امام المناظرین بحرالعلوم فاتح مناظرۂ جھنگ اشرف العلماء محمد اشرف سیالوی رضی اللہ عنہ

بائبل کی مکمل کہانی !
" پھر خداوند نے ابراہام سے کہا سارہ نے ہنس کر یہ کیوں کہا  کہ میرے ہاں واقعی بچہ ہوگا جب کہ میں ضعیفہ ہو چکی ہوں (١٣)
سارہ ڈر گئی اس لئے اس نے جھوٹ بولا اور انکار کیا کہ میں تو نہیں ہنسی (١٥)
{ پیدائش باب١٨ - ١٣ تا ١٥ }

اس عبارت پر ذرا غور فرماویں کہ حضرت سارہ باوجود ہنسنے کے مُکر گئیں اور انکار کر دیا جبکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ان کے ہنسنے کی خبر اللہ تعالیٰ نے دی تھی تو گویا انہوں نے صرف یہ نہیں کہ خود جھوٹ بولا بلکہ اللہ تعالیٰ کی خبر کو جھوٹ قرار دیا اور بایں ہمہ اللہ تعالیٰ کے خلیل نے ان کے ساتھ کوئی تادیبی کاروائی نہ فرمائی جس سے ان کا بھی بیوی کی رعایت میں خق خداوند تعالیٰ کو نظر انداز کرنا لازم آتا ہے حالانکہ یہ امر منصب خِلَّت کے سراسر خلاف ہےخلیل خدا تو صرف وہی ہو سکتا ہے جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی دوسرے کی محبت کا غلبہ و تسلط نہ ہو.
علاوہ ازیں جو علت اور وجہ بیان کی گئی ہے کہ وہ ڈرتی تھیں یہ بھی محلِ نظر ہے کیونکہ انکار اور مُکر جانا وہاں کام دے سکتا ہے جہاں مخاطب اور متعلقہ اشخاص کو حقیقت حال کا علم نہ ہو خلیل خدا کے متعلق یہ سوچ کہ ان کو حقیقت کا کیا علم؟
حضرت سارہ جیسی شخصیت سے بہت بعید ہے اور اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ تخیل بھی ناقابلِ تصوّر ہے علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ سے ڈر اور خوف کا تقاضا مُکر جانا تو نہیں ہوسکتا بلکہ اس کا تقاضا عفو اور درگزر کا مطالبہ کرنا ہے لہذا اس عبارت میں حضرت سارہ کے عقیدہ کا جو نقشہ کھینچا گیا ہے وہ ان کی عظمت شان کے سراسر خلاف ہے بلکہ ان پر بہتان ہے اور ان کے خاوند اور اولاد پر بھی الزام بلکہ بہتان ہے۔

اسلامی نقطۂ نظر

قرآن مجید نے ان کا ہنسنا بھی بیان کیا اور اس کا سبب بھی اور فرشتوں کا ان کی تسلّی کرنا بھی جس سے ان کا, ان کے خاوند اور اولاد کی اولاد کا مرتبہ و مقام پوری طرح محفوظ ہوجاتا ہے

سورہ ھود آیت ٧١,٧٢,٧٣

"اور ابراہیم علیہ السلام کی بیوی کھڑی تھی پس ہنسی تو ہم نے اس کو اسحاق کی بشارت دی اور اسحاق کے بعد یعقوب کی اس نے کہا اے ہلاکت میری
کیا میں بچے کو جنم دوں گی حالانکہ میں بالکل بوڑھی ہوں اور میرا یہ خاوند بھی عمر رسیدہ ہے بیشک یہ بات عجیب ہے فرشتوں نے کہا کیا تو اللہ تعالیٰ کے امر سے تعجب کرتی ہےاللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کی برکات تم پر ہوں اے اہلبیت بیشک وہ ہمیشہ کیلئے قابلِ ستائش ہے اور بزرگی والا"

کلام مجید کے ان کلمات کو غور سے پڑھیں تو کس قدر حضرت سارہ کا دامن کذب اور غلط بیانی سے پاک نظر آتا ہے اور اس میں کس قدر خاندان نبوت کی عظمت و مرتبت کا اظہار ہے
لہذا بلا خوفِ تردید کہا جاسکتا ہے کہ صرف اسلام اور قرآن نے اور محمد الرسول اللہﷺ نے ہی انبیآء و رسل علیھم السلام کی عزت و حرمت اور عظمت و رفعت کا تحفظ کیا ہے اور دیگر مذاہب اور ان کی کتب نے الزام۔تراشی اور افتراء پردازی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا اور ان مقدس ہستیوں کو بدنام کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی.

دی ہولی بائبل اور شان انبیاء میں گستاخیاں
صفحہ ١٠ , ١١ مطبوعہ اہل السنتہ جہلم

فیصلہ آپ کریں کہ انبیاء کرام کی عزت کا محافظ کون؟
اسلام یا عیسائیت ؟ ؟ ؟