پیر، 30 نومبر، 2015

علم ماکان و مایکون 4 حوالے مع اسکین پیجز

بسمﷲالرحمٰن الرحیم !

اہلسنت و جماعت کا عقیدہ ہے جو ہوچکا ہے جو ہو رہا ہے اور جو ہوگا سب کا علم ﷲ عالم الغیب نے اپنے حبیب صلیﷲعلیہ وسلم کو عطا فرمایا ہے اسی کو

"علم ماکان و مایکون"

کہا جاتا ہے ! مخالفین اہلسنت کے اس عقیدے کو جو کہ قران و حدیث سے ماخوذ ہے مشرکانہ عقیدہ بتاتے ہیں حالانکہ ایسا کہنا ازلی شقاوت کے اظہار کے علاوہ کچھ حیثیت نہیں رکھتا جب کہ اس کے برعکس
حضور ﷺ کیلئے علم ماکان ومایکون کا عقیدہ دراصل اکابرین و سلف صالحین کا عقیدہ ہے !

جن میں سے یہاں "چار یار" کی نسبت سے چار  اکابرین پیش خدمت ہیں !

ﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا !

"خلق الانسان علمہ البیان"
اسی نے انسان کو پیدا کیا اور اسے بولنا سکھایا

(ترجمہ جونا گڑھی نجدی)

ان آیات کی تفسیر میں مفسرین نے بہت کچھ لکھا ہے لیکن
مشہور مفسّر امام بغوی علیہ الرحمتہ فرماتے ہیں!

" خلق الانسان یعنی محمداً

صلیﷲ علیہ وسلم
علمہ البیان یعنی بیان ماکان ومایکون "

تفسیر البغوی (معالم التنزیل)
صفحہ ١٢٥٧
ابی محمد حسین بن مسعود البغوی
(متوفی ٥١٦ھ)

اسی طرح قدیم مفسّر امام قرطبی رحمتہﷲعلیہ یوں فرماتے ہیں!

" الانسان ھاھنا یراد بہ محمد صلیﷲعلیہ وسلم ﷺ
والبیان وقیل ماکان ومایکون "

الجامع الاحکام القرآن والمبین لما تضمنہ من السنتہ وآی الفرقان
الجزءالعشرون صفحہ١١٣
ابی عبدﷲ محمد بن احمد بن ابی بکر القرطبی (متوفی ٦٧١ھ)

یعنی اس آیت میں انسان سے مراد
محمد صلیﷲ علیہ وسلم ہیں اور بیان سے مراد (بعض کہتے ہیں)
ماکان ومایکون کا بیان ہے!

ایک اور مفسّر امام ابن عادل حنبلی علیہ الرحمتہ فرماتے ہیں!

" المراد بالانسان ھنا محمد علیہ السلام
علمہ البیان وقیل ماکان ومایکون "

اللباب فی علوم الکتاب
المشہور تفسیر ابن عادل
الجزء الثامن عشر صفحہ٢٩٣-٢٩٤
ابی حفص عمر بن علی ابن عادل الدمشقی الحنبلیؒ (متوفی ٨٨٠ھ)

اسی طرح امام ثعلبی علیہ الرحمتہ کی تفسیر میں موجود ہے!

" خلق الانسان یعنی محمداً صلیﷲ علیہ وسلم 
علمہ البیان یعنی بیان ماکان ومایکون "

الکشف والبیان فی تفسیر القران
المشہور تفسیر الثعلبی
الجزء السادس صفحہ٤٨
العلامہ ابی اسحٰق احمد بن محمد بن ابراھیم الثعلبیؒ (متوفی ٤٢٧ھ)

معلوم ہوا کہ اہلسنت وجماعت کا عقیدہ (متعلق ماکان و مایکون) قرانی اور تفسیری تعلیمات کے عین مطابق ہے !

ہم نے ترتیب وار ان تفاسیر کا ٹائٹل پیج اور صفحہ اسکین کرکے پیش کیا ہے تاکہ معاملہ "عین الیقین" تک پہنچ جائے !

والحمدللہ رب العالمین !

اتوار، 29 نومبر، 2015

مسئلہ حاضر ناظر اور ملا علی قاری حنفیؒ

{±±±±± حاضر و ناظر ±±±±±}

قاضی عیاض مالکی علیہ الرحمتہ نقل کرتے ہیں کہ
حضرت عمرو بن دینار رحمتہﷲعلیہ نے فرمایا :

" ان لم یکن فی البیت احد فقل :
السلام علی النبی ورحمتہﷲ وبرکاتہ السلام علینا وعلیٰ عبادﷲ الصالحین السلام علیٰ اھل البیت ورحمتہﷲ وبرکاتہ "

الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ

الجزء الثانی صفحہ ٣٠٧
القاضی ابی الفضل عیاض بن موسیٰ بن عیاض المالکی (٥٤٤ھ) الیحصُبی الاندلسی ثم المراکشی
مطبوعہ دارالحدیث القاھرہ (مصر)

اگر کوئی گھر میں نہ ہو تو (داخل ہوتے وقت) یوں کہو !
السلام علی النبی ورحمتہﷲ وبرکاتہ السلام علینا وعلیٰ عبادﷲ الصالحین السلام علیٰ اھل البیت ورحمتہﷲ وبرکاتہ

کتاب الشفاء (اردو)
جلد دوم صفحہ 64
مطبوعہ شبیر برادرز لاہور

شفاء شریف کی شرح کرتے ہوئے ملا علی قاری علیہ الرحمتہ اس مقام پر آکر یوں فرماتے ہیں !

" لان روحہ علیہ السلام حاضر فی بیوت اھل الاسلام "

شرح الشفاء
الجزء الثانی صفحہ ١١٨
الملا علی قاری الھروی الحنفیؒ
(متوفی ١٠١٤ھ)
مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان

(یعنی السلام علی النبی ورحمتہﷲ وبرکاتہ کا حکم اس لئے کیونکہ) نبی کریم ﷺ کی روح ہر مسلمان کے گھر میں حاضر ہوتی ہے!

معلوم ہوا کہ اہلسنت کے وہی عقائد ہیں جو اکابرین اہلسنت کے تھے !
حیرت والی بات یہ ہے کہ اکابرین و سلف صالحین اگر حضور ﷺ کو ہر مسلمان کے گھر جلوہ فرما مانیں تو ان کے ایمان کی بنیاد مضبوط کی مضبوط ہی رہتی ہے اور اگر متاخرین بزرگانِ اہلسنت اسی عقیدے کو " حاضر و ناظر " کے عنوان سے بیان فرمائیں تو شرک کے فتوے صادر فرما دیئے جاتے ہیں!
مخالفین کا یہ دوہرا معیار سمجھ سے بالاتر ہے !

السلام اے حاکم و ناصر رسول
السلام اے حاضر و ناظر رسول

والحمدللہ رب العالمین !
hafiznaqshbandi.blogspot.com

ہفتہ، 28 نومبر، 2015

قبر میں زندگی کا عطا کیا جانا

/<<<<<<< قبر میں زندگی >>>>>>>\
ﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا !

" من عمل صالحا من ذکر او انثیٰ وھو مومن فلنحیینّہ حیوٰةً طیّبہ "
سورہ النحل آیت ٩٧ پارہ ١٤

جو شخص نیک عمل کرے مرد ہو یا عورت لیکن با ایمان ہو تو ہم اسے یقیناً نہایت بہتر زندگی عطا فرمائیں گے

( ترجمہ مولوی جونا گڑھی نجدی)

دوسری صدی ہجری کے عظیم مفسّر علامہ آلوسی علیہ الرحمتہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں !

" ھی حیوٰة تکون فی البرزخ فقد جآءہ القبر روضتہ من الریاض الجنتہ او حفرہ من حفر النار "

تفسیر روح المعانی فی تفسیر القران العظیم والسبع المثانی
الجزء الرابع عشر صفحہ ٢٢٦
مفتیٔ بغداد العلامہ ابی الفضل شہاب الدین السید محمود الآلوسی البغدادی
(متوفی ١٢٧ھ)

قران پاک کی آیت میں حیوٰة سے مراد وہ زندگی ہے جو قبر میں عطا کی جائے گی !
پس قبر یا تو جنت کے باغات میں سے ایک باغ ہے یا آگ کے گڑوں میں سے گڑا

معلوم ہوا جو مومن نیک اعمال کرے ﷲ اسے قبر میں عمدہ زندگی عطا فرماتا ہے جب عام مومن کو قبر میں پاکیزہ زندگی دی جاتی ہے تو
مومنوں سے شہیدوں کی زندگی اعلیٰ
شہیدوں سے نبیوں کی زندگی اعلیٰ
اور سارے نبیوں سے امام الانبیاء ﷺ کی زندگی اعلیٰ ہے!
بحمدﷲ ہم اہلسنت زندہ نی کے زندہ غلام ہیں !

تو زندہ ہے وﷲ تو زندہ ہے وﷲ
میرے چشم عالم سے چھپ جانے والے

والحمدللہ رب العالمین !

لفظ نبی کا ترجمہ اور اکابرین

[______ لفظ نبی کا معنی ______]

چھٹی صدی ہجری کی مشہور اور علمی شخصیّت قاضی عیاض مالکی علیہ الرحمتہ لفظ نبی کا معنی و مفہوم یوں بیان فرماتے ہیں!

" والمعنیٰ ان ﷲ تعالیٰ اطلعہ علیٰ غیبہ "

الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ ﷺ
الجزء الاول صفحہ ١٥٧
القاضی ابی الفضل عیاضؒ مالکی الیحصُبی اندلسی ثم مراکشی
(متوفی ٥٤٤ھ)
مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان

النسختہ الثانیہ
صفحہ ١٦٩
مطبوعہ دارالحدیث القاہرہ (مصر)

" اس کا معنی یہ ہے کہ ﷲ تعالیٰ نے اسے غیب پر مطلع فرمایا ہے "

کتاب الشفاء (اردو)
جلد اول صفحہ 388
مطبوعہ مکتبہ نبویہ لاہور (پاکستان)

دوسرا نسخہ
حصہ اول صفحہ 178
مطبوعہ شبیر برادرز لاہور (پاکستان)

شفاء شریف کی اس عبارت کی شرح کرتے ہوئے
علامہ شہاب الدین خفاجی علیہ الرحمتہ فرماتے ہیں !

" (والمعنیٰ) ای معنیٰ  النبی المفھوم من الکلام علیٰ ھذا القول (ان ﷲ اطلعہ علیٰ غیبہ) ای اعلمہ واخبرہ بمغیباتہ "

نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض
الجزء الثالث صفحہ ٣٤١
شہاب الدین احمد بن محمد بن عمر الخفاجی المصری
(متوفی ١٠٦٩)
مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان

علامہ خفاجیؒ فرماتے ہیں کہ قاضی عیاضؒ نے لفظ نبی کا جو معنی بتایا ہے کہ

" ﷲ نے اسے غیب پر مطلع کیا ہے "
اس کا مفہوم یہ ہے کہ نبی وہ ہوتا ہے جسے مغیبات کا علم اور مغیبات کی خبریں دی جاتی ہیں !

معلوم ہوا کہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمتہ نے جو لفظ نبی کا ترجمہ

" غیب کی خبریں بتانے والا "

کیا ہے یہ ترجمہ اکابرین و سلف صالحین کی تعلیمات اور ان کے عقائد کے عین مطابق ہے !

والحمدللہ رب العالمین!

جمعہ، 27 نومبر، 2015

آیت نور اور تفسیر عبدﷲ بن عباس رضیﷲعنہما

{______آیت نور ______}
ﷲ پاک نے ارشاد فرمایا !

" قَد جَآءَ کُم مِنَ ﷲ نُورٌ وَّ کِتٰبٌ مُّبین "

(سورہ المائدہ پارہ نمبر٦ آیت١٥)

" تمہارے پاس ﷲ کی طرف سے نور اور واضح کتاب آچکی ہے "

(ترجمہ جوناگڑھی نجدی)

اس آیت کی تفسیر میں بہت سے اکابر مفسرین نے " نور " سے مراد حضور ﷺ کو لیا ہے!
یہی تفسیر نبی کریم ﷺ کے چچازاد بھائی صحابی ابن صحابی سیدنا عبدﷲ بن عباس (رضیﷲعنہما) کی طرف منسوب تفسیر
" تنویر المقباس " میں بھی موجود ہے!
آپ فرماتے ہیں !

" رسول یعنی محمدً "

تنویر المقباس من تفسیر ابن عباسؓ صفحہ١١٩
مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان

یعنی یہاں نور سے مراد "رسول" ہیں اور رسول بھی کوئی اور نہیں بلکہ محمد ﷺ

معلوم ہوا کہ ﷲ کریم نے اپنے محبوب کریم ﷺ کو نور بنایا ہے اسی لئے قران میں نور کہہ کر ارشاد فرمایا !
اس سے ہرگز یہ مراد نہیں کہ آپ ﷺ بشر نہ تھے بلکہ مراد یہ ہے کہ آپ ﷺ کی حقیقت "نور" ہے اور بشریت آپ کی "صفت" ہے دونوں میں سے کسی ایک کا انکار بھی "کُفر" ہے!

ایک دوست کے حکم کی تعمیل میں یہ گزارشات پیش کیں!

والحمد للہ رب العالمین !

عقیدۂ علم غیب اور امام قرطبیؒ

{______ علم غیب ______}
ﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا !

" عَالِمُ الغَیبِ فَلَا یُظہِرُ عَلیٰ غَیبِہ اَحَداً اِلَّا مَنِ الرتَضیٰ مِن الرَسُول "

(سورہ جنّ آیت ٢٦ ٢٧)

وہ غیب کا جاننے والا ہے اور اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا
سوائے اس پیغمبر کے جسے وہ پسند کرلے

(مولوی جوناگڑھی نجدی)

اس آیت کی تفسیر میں معروف مفسّر "امام قُرطبی" علیہ الرحمتہ فرماتے ہیں!

" کان فیہ دلیل علیٰ انّہ لا یعلم الغیب احد سواہ , ثم استثنیٰ من ارتضاہ من الرسل "

الجامع الاحکام القران صفحہ ٣٠٨
الجزء الحادی والعشرون
مؤلف ابی عبدﷲ محمد بن احمد بن ابی بکر القرطبیؒ (متوفی ٦٧١)
مطبوعہ بیروت لبنان

" اس میں اس بات پر دلیل ہے کہ ﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا پھر ان رسولوں کو اس سے مستثنیٰ کردیا جن پر وہ راضی ہے "

تفسیر قرطبی (اردو)
جلد دہم صفحہ ٣٩
مطبوعہ ضیاء القران لاہور

معلوم ہوا کہ ﷲ پاک اپنے پسندیدہ رسولوں کو "علمِ غیب" عطا فرماتا ہے اور بحمدﷲ قران کی مذکورہ آیت اور اس کی تفسیر اسی بات پر دلالت کرتی ہے!
یہ امر بھی واضح ہوگیا کہ "اہلسنت وجماعت" نے قران کو اسی طرح سمجھا ہے جیسے اکابرین و سلف صالحین (رحمھمﷲ) نے سمجھا تھا !

والحمدللہ رب العالمین !!!

اتوار، 22 نومبر، 2015

شیعہ کے معروف اعتراض کا ردّ

( شیعہ کے معروف اعتراض کا ردّ )
شیعہ حضرات سیدنا ابوبکر صدیق رضیﷲعنہ پر ایک اعتراض کرتے ہیں کہ سفرِہجرت میں جب رسولﷲ ﷺ غار ثور میں پناہ گزیں ہوئے تو حضرت ابوبکرؓ نے رونا شروع کیا اس خوف سے کہ کہیں میں مارا نہ جاؤں تب نبی کریم ﷺ نے فرمایا

لَا تَحزَن
کہ ابوبکرؓ غم نہ کر (رو مت)

شیعہ کی تصانیف ہوں یا مجالس ہرجگہ (موقع ملتے ہی) یہ اعتراض کیا جاتا ہے جس کا مقصد عوام کو یہ باور کرانا ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کو نبی کریم ﷺ کی کچھ پرواہ نہ تھی وہ تو اپنی جان کے خوف میں گریہ کررہے تھے !
حالانکہ سیدنا صدیق اکبر رضیﷲعنہ کی زندگی کا ہر لمحہ اطاعت و حفاظتِ مصطفیٰ ﷺ میں گزرا
اگرچہ ان لمحات کو کتب اہلسنت کی روشنی میں دلیل بنا کر شیعہ کے اعتراض کو مردود کہا جاسکتا ہے مگر

افضل ماشھدت بہ الاعداء
جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے

کے تحت پیش ہے شیعہ کے اپنے گھر کی گواہی!

شیعہ مفسّر جواد مغنیّہ سورہ توبہ کی آیت نمبر 40 (آیت غار) کی تفسیر میں یوں رقمطراز ہے!

بکیٰ ابوبکر خوفا علی النبی (ﷺ)

تفسیر الکاشف
المؤلف محمد جواد مغنیّہ
الجزء العاشر صفحہ ٤٥ المجلد الرابع مطبوعہ دارالانوار بیروت لبنان

یعنی حضرت ابوبکر صدیق رضیﷲعنہ کا رونا نبی کریم ﷺ پر خوف کی بناء پر تھا نہ کہ اپنی جان کے خوف کی وجہ سے
سیدنا صدیق اکبر رضیﷲعنہ کو یہ فکر نہ تھی کہ میرے ساتھ کیا ہوگا بلکہ ان کو تو یہ فکر دامن گیر تھی کہ کہیں میرے آقا و مولیٰ ﷺ کو نہ کچھ ہوجائے !
اسی لئے حضور علیہ السلام نے فرمایا !

لا تحزن ان ﷲ معنا
حزن و ملال نہ کر بیشک ﷲ ہم دونوں کے ساتھ ہے!

یعنی اے ابوبکر تم میری فکر نہ کرو ﷲ میرے ساتھ ہے اور چونکہ تم میری فکر کر رہے ہو لہذا ﷲ کو تمہیں بھی دشمنوں سے محفوظ رکھے گا کیونکہ ﷲ تمہارے بھی ساتھ ہے !
لہذا شیعہ حضرات کا یہ اعتراض کہ حضرت ابوبکر اپنی جان کی فکر میں روئے خود ان کے گھر کی گواہی سے مردود ہوگیا !
والحمدللہ رب العالمین !

ہفتہ، 14 نومبر، 2015

اذان کے اوّل آخر درود و سلام

بسمﷲ الرحمان الرحیم !
صلوٰة و سلام اذان سے پہلے پڑھا جائے یا بعد میں پڑھا جائے بالکل جائز ہے بلکہ ایک مستحب عمل ہے,
دلائل ملاحظہ ہوں !
دلیل نمبر 1 _ قران عظیم میں اہل ایمان کو حکم دیا کہ
(ترجمہ) اے ایمان والو تم نبی کریم ﷺ (کی ذات گرامی) پر صلوٰة اور خوب سلام پڑھو (سورہ احزاب پارہ ٢٢)
یہ حکم مطلق ہے اس میں وقت کی کوئی قید نہیں لہذا جس وقت بھی صلوٰة و سلام پڑھا جائے گا ﷲ تعالیٰ کے اس حکم کی تعمیل ہوگی اذان سے قبل یا بعد کا وقت بھی اس میں شامل ہے.
(المطلق یجری علی اطلاقہ)
دلیل نمبر ٢ _ حدیث شریف میں ہے
" کل امر ذی بال لم یبدا فیہ بحمدﷲ والصلوٰة علی فھو اقطع وابتر ممحوق من کل برکاتہ "
یعنی ہر ذیشان اور اچھا کام جس کی ابتداء ﷲ تعالیٰ کی حمد اور مجھ پر درود پڑھنے سے نہ کی جائے وہ کام ناتمام اور ہر برکت سے خالی ہوگا.
(جامع الصغیر ج٢ ص٩١ , نیل الاوطار از قاضی شوکانی ص١٨)
معلوم ہوا کہ اذان سے پہلے صلوٰة پڑھنا اس حدیث کے عین مطابق ہے اس لئے کہ اذان بھی ایک امر ذیشان ہے لہذا اس سے پہلے صلوٰة و سلام پڑھنا باعث برکت ہے جیسا کہ اذان یا کسی بھی اچھے اور جائز کام سے پہلے
" بسمﷲ الرحمان الرحیم "
اور حمد الہی پڑھنا باعث برکت ہے احادیث میں اس کا بھی حکم ہے.
اذان سے پہلے صلوٰة و سلام پڑھنا اضان میں اضافہ اور زیادتی نہیں اس لئے کہ اذان کے کلمات مشہور و معروف ہیں اور خاص و عام کو اس بات کا علم ہے کہ ادان "ﷲاکبر" سے شروع ہوتی ہے اور "لاالہ الاﷲ" پر ختم ہوجاتی ہے لہذا اس سے پہلے یا بعد میں صلوٰة و سلام پڑھنے سے زیادتی کا وہم نہیں ہوسکتا جیسا کہ تلاوت قران سے پہلے "تعوذ و تسمیہ" اور اختتام پر "صدقﷲالعظیم" کے کلمات کثیرہ ادا کئے جاتے ہیں.
دلیل نمبر ٣ حدیث شریف میں ہے!
" اذا سمعتم الموذن فقولو مثل مایقول ثم صلو علیّ "
جب تم مؤذن سے اذان سنو تو اس کی مثل کلمات کہو پھر مجھ پر درود پڑھو (اس کے بعد دعا وسیلہ کا ذکر ہے)
مسلم شریف ج١ ص١٦٦
اذان کے بعد درود شریف پڑھنے اور دعا وسیلہ کا حکم جس طرح اذان سننے والوں کیلئے ہے اسی طرح یہ حکم اذان پڑھنے والے کو بھی شامل ہے تو اگر اذان کے بعد دعا وسیلہ سے پہلے درود شریف پڑھنے سے اذان میں اضافہ نہیں ہوتا بلکہ حدیث رسول ﷺ کے عین مطابق ہے تو اذان سے پہلے صلوٰة و سلام پڑھنے سے بھی اذان میں اضافہ اور زیادتی نہیں ہوگی,کیونکہ اضافہ و زیادتی اذان سے پہلے جائز ہے نہ بعد میں الحمدللہ اہلسنت کا دامن اس زیادتی سے پاک ہے. !
اضافہ اور زیادتی کا معنی
عنایہ شرح ہدایہ ج١ ص٤٢٤ پر ہے
" ان الزیادة علی الشیء انما تتحقق اذا کانت من جنس المزید علیہ "
یعنی کسی شے میں زیادتی اس وقت متصور ہوتی ہے جب کہ وہ مزید علیہ (جس پر زیادتی کی گئی ہے اس) کی جنس سے ہو
تو جب اذان کے کلمات اور درود و سلام کے صیغے الگ الگ اور دونوں کا لب و لہجہ بھی جدا ہے تو اس سے پہلے درود شریف کا پڑھنا اضافہ اور زیادتی کیسے ہوسکتا ہے۔؟
پھر بھی ہمارے علماء اہلسنت وجماعت قدرے وقفہ و فصل کا حکم دیتے ہیں تاکہ کوئی جاہل اپنی نادانی سے اسے اذان کا جز نہ سمجھ بیٹھے.
دلیل نمبر ٤ _ حضرت سیدنا بلال رضیﷲعنہ کا طریقہ
حضرت بلال رضیﷲعنہ اذان فجر سے پہلے ہمیشہ یہ دعا پڑھتے تھے.
" اللھم انی احمدک واستعینک علی قریش ان یقیموا دینک ثم یؤذن قالت وﷲ ما علمتہ کان ترکھا لیلتہ واحدة ھذہ الکلمات "
اے ﷲ بیشک میں تیری حمد کرتا ہوں اور تجھ سے قریش پر مدد مانگتا ہوں کہ قریش تیرے دین کو قائم کریں پھر اذان دیتے (صحابیہ راویہ) فرماتی ہیں ﷲ کی قسم حضرت بلال رضیﷲعنہ نے کسی ایک رات بھی ان کلمات کو نہیں چھوڑا.
(ابوداؤد شریف ص٧٧)
اذان سے پہلے قریش کیلئے دعا کرنا حضرت بلال حبشی رضیﷲعنہ مؤذن رسول ﷺ کی سنت سے ثابت ہے اور صلوٰة خود دعا ہے جو کہ امتی اپنی غلامی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے نبی کیلئے کرتا ہے جب اذان سے پہلے قریش کیلئے دعا کرنا جائز ہے تو قریش کے سردار سیدعالم ﷺ کیلئے دعا کرنا بدرجۂ اولیٰ جائز ہے.
معلوم ہوا اذان سے پہلے صلوٰة و سلام پڑھنا قرآن عظیم کے حکم (صلواعلیہ) پر عمل اور حدیث رسول ﷺ کی تعمیل اور حضرت بلال رضیﷲعنہ کی سنت کے عین مطابق ہے.
اس پر منع کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے.
مانعین آج تک اس کی ممانعت پر نہ قرآن عظیم کی کوئی آیت پیش کرسکتے ہیں اور نہ کوئی صحیح حدیث جس میں صراحتہً اذان سے پہلے صلوٰة و سلام سے منع کیا گیا ہو انشاءﷲ قیامت تک پیش نہ کرسکیں گے.
جو شریعت میں منع نہ ہو وہ جائز ہے حدیث شریف میں ہے.
" الحلال مااحلﷲ فی کتابہ والحرام ما حرمﷲ فی کتابہ وما سکت عنہ فھو مما عفی عنہ "
یعنی حلال وہ ہے جس کو ﷲ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حلال فرمایا اور حرام وہ ہے جس کو ﷲ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حرام فرمایا اور جس کو بیان نہ فرمایا وہ جائز ہے.
(ترمذی شریف)
مزید دیوبندیوں کے حکیم الامت تھانوی صاحب لکھتے ہیں جو فعل نہ مامور بہ ہو نہ منہی عنہ یعنی نصوص شرعیہ میں نہ اس کے کرنے کی ترغیب ہو اور نہ اس کے کرنے کی ممانعت ہو ایسا امر مباح ہوتا ہے.
(باب جنت ص١١٤)
معلوم ہوا جس کام سے شریعت نے منع نہ کیا ہو اس سے روکنے کا کسی کو اختیار نہیں ہے اور صلوٰة و سلام کی تو قران و حدیث میں ترغیب بلکہ حکم شرعی بھی موجود ہے تو اس سے منع کرنا شریعت مطہرہ سے کھلی بغاوت ہے.
نوٹ!.....
ناقل (غلام حسین نقشبندی) نے یہ مضمون مجلّہ "فکر سواد اعظم" ج٤ شمارہ نمبر١١ نمبر٢٨ ذوالحجہ١٤٣٦ھ سے نقل کیا گیا ہے!

جمعہ، 13 نومبر، 2015

حضرت ابوبکرؓ کا لقب صدیق شیعہ عالم کے قلم سے

[__حضرت ابوبکرؓ کا لقب صدیق__]
شیعہ عالم الاربلی (متوفی سنہ ٦٩٣ ھ) نے حضرت امام جعفر الصادق رضیﷲعنہ کا نسب بیان کرتے ہوئے لکھا !
کہ آپ کی ماں کا نام ام فروہ (رضیﷲعنہا) ہے جو بیٹی ہیں حضرت قاسم (رضیﷲعنہ) کی اور حضرت قاسم بیٹے ہیں حضرت محمد (رضیﷲعنہ) کے اور محمد بیٹے ہیں حضرت ابوبکر صدیق رضیﷲعنہ کے !

" ام فروہ بنت القاسم بن محمد بن ابوبکر صدیق رضیﷲعنہ "

کشف الغمہ فی معرفتہ الائمہ
الجزء الثانی صفحہ ٣٦٨
تالیف : ابی الحسن علی بن عیسیٰ بن ابی الفتح الاربلی (٦٩٣ھ)
مطبوعہ دارالاضواء بیروت لبنان

حضرت ابوبکر کے نام کے ساتھ لفظ """صدیق""" واضح طور پر لکھا ہے
شیعہ عالم الاربلی نے اور بھی کئی مقامات پر ایسا لکھا ہے !

جمعرات، 12 نومبر، 2015

شیعہ محرّف قوم

انبیاء علیھم السلام کی گستاخی)
شیعہ مولوی لکھتا ہے کہ حضرت عباس بن علی (رضیﷲعنھما) کو ایسا مقام حاصل ہے جس سے بہت سے انبیاء محروم رہے !
(استغفرﷲ)
اور ستم بالائے ستم یہ کہ شیعہ ناشرین نے تحریف کا حق ادا کردیا پرانے نسخے میں یہ بکواس موجود ہے جب کہ نئی اشاعت میں پوری کی پوری عبارت ہی حاضری کے چاول سمجھ کر ہضم کرگئے !
یوں لگتا ہے جیسے چور کی داڑھی میں تنکا :)

شیعہ کا توہین آمیز عقیدہ

(شیعہ حضرات کا توہین آمیز عقیدہ)
حضرت علی رضیﷲعنہ سوائے حضور اکرم ﷺ کے تمام نبیوں سے افضل ہیں !
(استغفرﷲ)

بدھ، 11 نومبر، 2015

امام زین العابدین رضیﷲعنہ کی بد دعا

[_"امام زین العابدینؓ کی بددعا"_]

امام زین العابدین کی خدمت میں عراقیوں کا ایک گروہ آیا آتے ہی (حضرات) ابوبکر و عمر و عثمان (رضیﷲعنہم) کی شان میں بکواس بکنا شروع کیا جب چپ ہوئے تو امام نے فرمایا کہ کیا بتاؤ گے کہ تم وہ مہاجرین اولین ہو؟ جو اپنے گھروں اور مالوں سے ایسی حالت میں نکالے گئے تھے کہ وہ ﷲ کا فضل اور رضا چاہنے والے تھے اور ﷲ و رسول کی مدد کرتے تھے اور وہی سچے تھے تو عراقی کہنے لگے ہم وہ نہیں,
امام نے فرمایا پھر تم وہ لوگ ہوگے ؟ جنہوں نے اپنے گھربار اور ایمان ان مہاجروں کے آنے سے پہلے تیار کیا ہوا تھا ایسی حالت میں کہ وہ اپنی طرف ہجرت کرنے والوں کو دل سے چاہتے تھے اور جو کچھ مال مہاجرین کو دیا گیا تھا اس کے متعلق اپنے دلوں میں کسی قسم کا حسد یا بغض اور کینہ محسوس نہ کرتے تھے اگرچہ وہ خود حاجت مند تھے(یعنی اہل مدینہ)مگر پھر بھی مہاجرین کو اپنے پر ترجیح دیتے تھے !
عراقی بولے ہم وہ بھی نہیں
امام نے فرمایا کہ تم اپنے اقرار سے ان دونوں جماعتوں (مہاجرین و انصار) میں سے ہونے کی برأت کرچکے ہو اور میں گواہی دیتا ہوں کہ تم ان مسلمانوں میں سے بھی نہیں جن کے بارے میں ﷲ فرماتا ہے
"اور وہ مسلمان لوگ جو مہاجرین و انصار کے بعد آئیں گے وہ یہ کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہمیں بخش اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش بخش جو ہم سے پہلے ایمان کے ساتھ سبقت لے چکے ہیں اور ایمان والوں کے متعلق ہمارے دلوں میں کسی قسم کا کھوٹ,بغض,کینہ اور حسد یا عداوت نہ ڈال"
(یہ فرما کر امام زین العابدینؓ نے فرمایا)

" اُخرُجُو عَنّی فَعَلَﷲُ بِکُم "
"میرے یہاں سے نکل جاؤ ﷲ تمہیں ہلاک کرے"

شیعہ کی معتبر کتاب
کشف الغمہ فی معرفتہ الائمہ
الجزء الثانی صفحہ ٢٩١
باب فضائل امام زین العابدینؓ
مطبوعہ دارالاضواء بیروت لبنان
مصنّف : ابی الحسن علی بن عیسیٰ بن ابی الفتح الاربلی
(المتوفی سنہ ٦٩٣ ھ)

طالب دعا : غلام حسین نقشبندی