ہفتہ، 22 اکتوبر، 2016

کھانا سامنے رکھ کر قرآن پڑھنا "قسط 2"

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم°

اہلسنت کے معمولات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہم لوگ کھانا سامنے رکھ کر فاتحہ , اخلاص یا پھر قرآن مجید کی دیگر آیات کی تلاوت کرتے ہیں جب کہ ہمارے مخالفین اس جائز عمل کو بدعت سیئہ,مکروہ اور نہ جانے کیا کیا کہتے ہیں باوجود اس کے کہ ہم اہلسنت اپنے دیگر معمولات کی طرح اس کا ثبوت بھی قرآن و سنت سے پیش کرتے ہیں,
مگر یہ حق والوں یعنی اہلسنت کی عداوت ہی کی سزا ہے کہ ہمارے مخالفین ثبوت و دلائل مل جانے کے بعد بھی ہم پر زبان طعن بلاوجہ دراز کرکے اپنی آخرت خراب کرتے رہتے ہیں اور اسی کے ساتھ امت محمدیہﷺ میں انتشار و افتراق کی وجہ بنتے ہیں جو کہ نہایت افسوس ناک امر ہے!

قسط 2 :-
(پچھلی قسط میں فتاوٰی رشیدیہ میں پوچھے گئے سوال میں) سائل کے سوال میں دوسری بات "یہ طریقہ بزرگان سلف سے چلا آتا ہے" پر کلام ان شاءاللہ آگے چل کر کریں گے,
فی الحال سائل کے سوال میں فتاوٰی عزیزی کے حوالے پر کلام پیش خدمت ہے!
گنگوہی صاحب نے جس شخصیت کے فتاوٰی عزیزی کا حوالہ آجانے پر بھی بے دھڑک بدعت کا فتویٰ صادر کیا
یہ وہی شخصیت ہیں جن کے مدّاح خود علماء دیوبند بھی ہیں!

دیوبندی مفتی عزیزالرحمٰن صاحب لکھتے ہیں!

"حضرت مولانا شاہ عبدالعزیزؒ کے علم و فضل و تقویٰ میں کسی کو کلام کی گنجائش نہیں"

اس کے بعد اگلے سوال کے جواب میں حضرت شاہ صاحب کو علماء کبار و اولیائے کرام میں سے لکھا ہے!

فتاوٰی دارالعلوم دیوبند جلد18 صفحہ581
مطبوعہ دارالاشاعت کراچی

دیوبندی شیخ الحدیث مولوی سرفراز خان صفدر گکھڑوی لکھتے ہیں!
"بلاشبہ مسلک دیوبند سے وابستہ جملہ حضرات حضرت شاہ عبدالعزیز صاحبؒ کو اپنا روحانی پدر تسلیم کرتے ہیں اور اس پر فخر بھی کرتے ہیں"

آگے لکھتے ہیں!
"بلاشک دیوبندی حضرات کیلئے حضرت شاہ عیدالعزیز صاحبؒ کا فیصلہ حکم آخر کی حیثیت رکھتا ہے"

اتمام البرھان فی ردّ توضیح البیان حصّہ اول
صفحہ نمبر138 مطبوعہ مکتبہ صفدریہ گوجرانوالہ

لطف کی بات یہ ہے کہ خود گنگوہی صاحب حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی صاحب کے بارے جو نظریہ رکھتے ہیں وہ قابل غور ہے.
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے خاندان کے متعلق لکھتے ہیں کہ

"بندہ خاندان حضرت شاہ ولی اللہ صاحب میں بیعت ہے اور اسی خاندان کا شاگرد ہے گو ان کے عقائد کو حق اور تحقیقات کو صحیح جانتا ہے"
پھر آگے شاہ عبدالعزیز صاحب اور ان کی تفسیر کا ذکر ہے!

فتاوٰی رشیدیہ صفحہ58
مطبوعہ ادارۂ صدائے دیوبند

حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کی علماء دیوبند کے قلم سے اس قدر تعریف کے بعد یہ بات روز روشن کی طرح واضح اور عیاں ہے کہ شاہ صاحب کی شخصیت اور ان کی تصانیف کا علماء دیوبند کے ہاں کیا مقام ہے!
اور بقول سرفراز صفدر صاحب کے شاہ صاحب کا فیصلہ دیوبندی حضرات کیلئے حکم آخر ہے!
(حوالہ پہلے گزر چکا)

¢¢¢¢¢¢ شاہ عبدالعزیز کا فیصلہ ¢¢¢¢¢¢

اب شاہ عبدالعزیز صاحب کا فیصلہ ملاحظہ ہو!
ایک سوال کے جواب میں شاہ صاحب فرماتے ہیں.

"جواب:- جس کھانے کا ثواب حضرت امامین ؓ کو پہنچایا جائے اور اس پر فاتحہ و قُل درود پڑھا جائے وہ کھانا تبرّک ہو جاتا ہے اس کا کھانا بہت خُوب ہے"

فتاوٰے عزیزی صفحہ 189
مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی

والحمد للہ علیٰ ذالک

لیجئے قارئین کرام!
حضرت شاہ صاحب اس کھانے جس پر صرف فاتحہ ہی نہیں بلکہ قل اور درود بھی پڑھا جائے کو برکت والا کھانا کہہ رہے ہیں اور
نہ صرف یہ بلکہ اسے کھانے کو خوب کہہ کر یہ واضح کیا جارہا ہے کہ اس کا تعلق کسی بدعت یا ناجائز امر سے قطعاً نہیں
اب غیرت کا تقاضا تو یہ ہے کہ دیوبندی حضرات اپنے اکابر کے قلم سے نکلے ہوئے جملوں کا پاس رکھیں اور شاہ عبدالعزیز صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے اس فیصلے کو حرف آخر سمجھتے ہوئے اس جائز عمل کو بدعت و ناجائز کہنا چھوڑ دیں اور
نہ صرف یہ بلکہ خود اس پر عمل کرکے بھی دکھائیں تاکہ ہمیں یقین واثق ہو جائے کہ دیوبندی حضرات کو اپنے اکابر کے قلم سے نکلے ہوئے لفظوں کی غیرت اور پاس ہے اور یہ حضرات واقعی حضرت شاہ صاحب کے فیصلے کو حکم آخر سمجھتے ہیں ! (فافھم)
وگرنہ روحانی باپ اور باپ بھی وہ جس پر بقول سرفراز صفدر دیوبندیوں کو فخر ہے کی نا فرمانی کا سہرا علماء دیوبند کے سرماتھے ہوگا.

#####  أَلَيْسَ مِنكُمْ رَجُلٌ رَّشِيدٌ #####

پیر، 17 اکتوبر، 2016

کھانا سامنے رکھ کر قرآن پڑھنا جواز , نقد , جواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم!
اہلسنت کے معمولات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہم لوگ کھانا سامنے رکھ کر فاتحہ , اخلاص یا پھر قرآن مجید کی دیگر آیات کی تلاوت کرتے ہیں جب کہ ہمارے مخالفین اس جائز عمل کو بدعت سیئہ,مکروہ اور نہ جانے کیا کیا کہتے ہیں باوجود اس کے کہ ہم اہلسنت اپنے دیگر معمولات کی طرح اس کا ثبوت بھی قرآن و سنت سے پیش کرتے ہیں,
مگر یہ حق والوں یعنی اہلسنت کی عداوت ہی کی سزا ہے کہ ہمارے مخالفین ثبوت و دلائل مل جانے کے بعد بھی ہم پر زبان طعن بلاوجہ دراز کرکے اپنی آخرت خراب کرتے رہتے ہیں اور اسی کے ساتھ امت محمدیہﷺ میں انتشار و افتراق کی وجہ بنتے ہیں جو کہ نہایت افسوس ناک امر ہے!
اب چونکہ کھانا سامنے رکھ کر قرآن ہم پڑھتے ہیں لہذا اپنے اس عمل کی تشریح و توضیح کا حق بھی صرف ہم کو ہے۔

¢¢¢¢¢¢ اہلسنت کے نزدیک ¢¢¢¢¢¢

صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں!
"یوہیں وہ لوگ جو اپنے کو حنفی کہتے ہیں اور ایصال ثواب سے انکار کرتے ہیں وہ بھی اس سے باز آجائیں کہ علاوہ حدیث کے کتب معتبرہ مستندہ حنفیہ کی متعدد عبارتیں پیش کر ذی ہیں کہ انکار کی گنجائش باقی نہیں
اور غالباً انہیں مجبوریوں کو دیکھتے ہوئے یہ لوگ اپنی طرف سے کچھ باتیں اضافہ کرکے اسے بدعت و ناجائز کہتے ہیں ورنہ ان کے متقدمین تو سرے سے ایصال ثواب سے ہی انکار کرتے تھے اور دلیل وہی پیش کرتے تھے جو معتزلہ پیش کرتے تھے مگر جب اہلسنت کے دلائل باہرہ کا جواب نہ ہوسکا تو عدم جواز کا دوسرا پہلو نکالا
کبھی کہتے ہیں کھانے پر فاتحہ پڑھنا ناجائز ہے اور کبھی یہ کہ ہاتھ اثھا کر فاتحہ پڑھ کر دعا کرنا کبھی یہ کہ کھانا سامنے رکھنا کبھی یہ کہ دن کی تخصیص کرنا غرض ایسی ہی باتیں پیش کر کے ایصال ثواب کو روکنا چاہتے ہیں!
اقول (میں کہتا ہوں) قرآن مجید کی قرأت وجہ ممانعت ہو جائے یہ عجیب بات ہے جب صدقہ اور قرأت قرآن دونوں چیزوں کا ثواب پہنچ سکتا ہے جیسا کہ کتب معتبرہ فقہ سے ثابت ہے عبارات پہلے گزر چکیں تو اگر یہ دونوں کام ایک وقت میں کئے جائیں تو ناجوازی کی کیا وجہ ہے؟
کیا اس وقت قرآن پڑھنا ناجائز ہے؟ یا تصدق ناجائز ہے؟
اور جب دونوں جائز تو ایک ساتھ بھی جائز"

فتاویٰ امجدیہ جلد اول صفحہ٣٥٠
مطبوعہ دائرہ المعارف الامجدیہ

حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمتہ بھی جواز کے قائل ہیں.

دیکھئے!
جآء الحق جلد اول صفحہ٢٦١
مطبوعہ نعیمی کتب خانہ لاہور

مفتیٔ اعظم پاکستان مفتی محمد وقار الدین رضوی علیہ الرحمتہ فرماتے ہیں!

"کھانا وغیرہ سامنے رکھ کر قرآن مجید میں سے کچھ سورتیں پڑھی جائیں اور اس کے بعد ایصال ثواب اور دعا کی جائے یہ اہلسنت کے نزدیک جائز ہے"

وقار الفتاویٰ جلد اول صفحہ١٩٩
مطبوعہ بزم وقارالدین کراچی

عصر حاضر کی معروف علمی شخصیت امام المناظرین شیخ القرآن علامہ فہامہ امام پروفیسر محمد سعید احمد اسعد صاحب دام ظلہ و زید مجدہ فرماتے ہیں!

"یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ ہم یہ ہرگز نہیں کہتے کہ ایصال ثواب کیلئے کھانا شرط ہے اور کھانے پر قرآن حکیم پڑھنا شرط ہے.
ہمارے نزدیک اگر کسی نے صرف کھانا پکا کر کسی کو کھلا کر اس کا ثواب میت کو پہنچایا تب بھی جائز
اگر صرف قرآن حکیم پڑھ کر اس کا میت کو ثواب بخشا تب بھی جائز
اگر کسی نے قرآن حکیم بھی پڑھا اور کھانا بھی پکایا لیکن کھانے پر قرآن حکیم نہیں پڑھا بلکہ الگ پڑھا اور ان دونوں چیزوں کا ثواب میت کو پہنچایا تب بھی جائز
ہاں ہاں_____________
اگر کوئی شخص یہ سمجھے کہ جب تک کھانے پر قرآن حکیم کی چند مخصوص آیات نہ پڑھی جائیں اتنی دیر تک میت کو ثواب پہنچ ہی نہیں سکتا وہ در حقیقت شریعت مطہرہ پر افتراء کرنے والا ہے اس کو اپنے اس گندے عقیدے سے توبہ کرنی چاہیئے!
اسی طرح_________
اگر کوئی یہ عقیدہ رکھے کہ اگر صرف کھانے کا ثواب میت کو بھیجا جائے تو پہنچے گا
اسی طرح اگر صرف قرآن خوانی کی جائے تو اس کا ثواب بھی پہنچے گا لیکن اگر کھانا سامنے رکھ کر قرآن اوپر پڑھا جائے تو ثواب نہیں پہنچے گا بلکہ ایسا کرنا بدعت اور گناہ ہوگا یہ عقیدہ رکھنے والا بھی شریعت مطہرہ افتراء کرنے والا ہے ایسے شخص کو بھی ایسے گندے عقیدے سے توبہ کرنی لازم ہے!
ہاں_________
اگر کوئی اس گندے عقیدے پر اصرار کرے تو اس پر لازم ہے کہ وہ قرآن حکیم , احادیث مبارکہ سے ایسی تصریح پیش کرے کہ قرآن حکیم اور طعام کا ثواب الگ الگ ہونے کی صورت میں تو میت کو پہنچے گا لیکن اگر کھانے پر قرآن حکیم پڑھا جائے تو گناہ ہوگا"

فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا وَلَنْ تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ

مسئلہ ایصال ثواب صفحہ نمبر ٥٠ تا ٥٢
مطبوعہ سنی اتحاد شیخ کالونی فیصل آباد

ان بزرگان اہلسنت کی تصریح و تشریح و توضیح سے معلوم ہوا کہ ہم اہلسنت کھانا سامنے رکھ کر قرآن مجید پڑھنے کو جائز سمجھتے ہیں نہ کہ فرض واجب
اور ایسے ہی اس عمل کے تارک کو نشانۂ طعن بھی نہیں بناتے
البتہ اس عمل کو بدعت وغیرہ کہنے والے حضرات کو شریعت پر افتراء کی وجہ سے قصور وار ضرور ٹھہراتے ہیں
علماء اہلسنت کی اس صراحت کے باوجود مخالفین ہمیں کیا کیا الزام دیتے ہیں؟
اس کی جھلک بھی ملاحظہ ہو!

¢¢¢¢¢¢ مخالفین کے الزام ¢¢¢¢¢¢

حنفیت کے دعویدار علماء دیوبند دیگر مسائل کی طرح اس مسئلے میں بھی غیر معمولی شدت اختیار کئے ہوئے ہیں جو عوام الناس کیلئے بہرحال درست نہیں!

دیوبندی حضرات کے قطب مفتی رشید احمد گنگوہی اپنی بھڑاس کچھ اندا ز سے نکالتے ہیں!

"سوال :- فاتحہ کا پڑھنا کھانے پر یا شیرینی پر بروز جمعرات کے درست ہے یا نہیں؟
جواب :- فاتحہ کھانے یا شیرینی پر پڑھنا بدعت ضلالت ہے ہرگز نہ کرنا چاہئیے"
اس سے پہلے والے سوال کا بھی کچھ اسی طرح کا جواب ہے جس میں اس عمل کو بدعت سیئہ کہا گیا ہے.

فتاویٰ رشیدیہ صفحہ١٤٢ کتاب العلم
مطبوعہ ادارۂ صدائے دیوبند

ایک اور مقام پر یوں ہے سوال اور جواب دونوں ملاحظہ ہوں!

" سوال :- فاتحہ,تیجہ,دسواں کرنا کیسا ہے؟_________________________زید کہتا ہے کہ چنوں پر فاتحہ سوم میں اللہ کا نام پڑھنا موجب ثواب ہے کہ اس سے ایصال ثواب منظور ہے اور یہ طریقہ بزرگان سلف سے چلا آتا ہے اس میں کچھ حرج نہیں ہے اور فتاویٰ عزیزی میں یہ طریقہ لکھا ہے پس زید کا قول تمام ہوا ان چنوں کا کھانا کیسا ہے___________________________"
جواب :- یہ جملہ امور بدعت ہیں صرف ایصال ثواب جائز ہے باقی قیودات بدعت ہیں"
اسی طرح اس کے بعد والے سوال کا جواب بھی کچھ یوں ہے کہ یہ سب امور بدعت ہیں!

فتاویٰ رشیدیہ صفحہ١٤٥
مطبوعہ ادارۂ صدائے دیوبند

تعصب و ہٹ دھرمی کی انتہاء ہے کہ سوال میں چنوں پر اللہﷻ کا نام پڑھنے کے متعلق پوچھا گیا تو جواب آیا کہ بدعت ہے حالانکہ کلام مجید اس بارے میں اس کے بالکل برعکس فرماتا ہے!

ارشاد ہوتا ہے!
"فَكُلُوا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ إِن كُنتُم بِآيَاتِهِ مُؤْمِنِينَ"

تو کھاؤ اس میں سے جس پر اللہ کا نام لیا گیا اگر تم اس کی آیتیں مانتے ہو

ترجمۂ کنزالایمان سورہ انعام آیت ١١٨ پارہ ٨

بلکہ اس سے اگلی آیت کریمہ میں گنگوہی اینڈ کمپنی کیلئے لمحۂ فکریہ ہے!

ارشاد باری تعالیٰ ہے!
"وَمَا لَكُمْ أَلَّا تَأْكُلُوا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَقَدْ فَصَّلَ لَكُم مَّا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ إِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ إِلَيْهِ ۗ وَإِنَّ كَثِيرًا لَّيُضِلُّونَ بِأَهْوَائِهِم بِغَيْرِ عِلْمٍ ۗ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِالْمُعْتَدِينَ"

اور تمہیں کیا ہوا ہے کہ اس میں سے نہ کھاؤ جس پر اللہ کا نام لیا گیا وہ تو تم پر مفصل بیان کر چکا جو کچھ تم پر حرام ہوا مگر جب تمہیں اس سے مجبوری ہو
بے شک بہتیرے اپنی خواہشوں سے گمراہ کرتے ہیں بے جانے
بے شک تیرا رب حد سے بڑھنے والوں کو خوب جانتا ہے.

ترجمۂ کنزالایمان سورہ انعام آیت ١١٩ پارہ ٨

قارئین کرام سے گزارش ہے کہ گنگوہی صاحب کا فتویٰ سوال جواب دونوں پڑھیں اور پھر مذکورہ بالا آیت کریمہ کو بھی پڑھیں اور پھر فیصلہ اپنے دل سے لیں کیا آیت کا مضمون لمحۂ فکریہ نہیں؟
قرآن حکیم پہلے حکم فرماتا ہے کہ اس میں سے کھاؤ جس پر اللہ کا نام لیا گیا مگر گنگوہی صاحب اسے بدعت کہتے ہیں اور پھر قرآن حکیم اپنے حکم پر عمل نہ کرنے والوں سے پوچھتا ہے کہ تم اس میں سے کیوں نہیں کھاتے جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہے اور اگر تم اسے بھی حرام سمجھتے ہو تو تمہارا سمجھنا باطل اور وہم ہے کیونکہ حرام کا ذکر تو تفصیلاً ہو چکا
اگر یہ عمل بھی حرام ہوتا تو حرام کردہ چیزوں میں ضرور بیان ہوتا پھر فرمایا
یہ صرف تمہارا وہمِ باطل ہی نہیں بلکہ تمہاری خواہش نفسانی ہے جس سے تم لوگوں کو ایسے فتوے دیکر گمراہ کرتے ہو
اور پھر ساری زندگی کی پڑھائی لکھائی پر پانی پھیرتے ہوئے فرمایا "بغیر علم"
ایسا اس لئے ہوا کیونکہ تم جاہل ہو اور پھر ساتھ ہی فرمایا کہ چند کتابیں پڑھ لینے سے تم عالم نہیں بنے بلکہ اس پڑھائی کے بل بوتے پر جو تم لوگوں کو گمراہ کر رہے ہو تو تم حدیں پھلانگ رہے ہو
تب ہی تو فرمایا
بے شک تیرا رب حد سے بڑھنے والوں کو خوب جانتا ہے

اسی لئے نائب محدث اعظمؒ پاکستان شیخ الحدیث محمد عبدالرشید صاحب علیہ الرحمتہ فرماتے ہیں!

"یعنی جس پاکیزہ چیز پر بھی اللہ تعالیٰ کا نام لیا جائے اسے کھانا جائز ہے لہذا تیجا,ساتا,دسواں,چالیسواں,سالانہ,گیارہویں شریف,بارہویں شریف,شب برأت وغیرہا کے کھانے جائز ہوئے کیرنکہ ان کھانوں پر قرآن شریف,درود شریف,ذکر و اذکار پڑھے جاتے ہیں
جو انہیں حرام سمجھے وہ شریعت پر زیادتی کرتا ہے!

رشد الایمان صفحہ ١٩٧
مطبوعہ مکتبہ رشد الایمان سمندری

اس کے علاوہ سائل کے ان الفاظ پر بھی غور ہو کہ یہ طریقہ بزرگان سلف سے چلا آتا ہے
مگر گنگوہی صاحب ہیں کہ بنا اس بات کا ردّ کئے بدعت کا فتویٰ داغ رہے ہیں اب اس فتوے کی زد میں کون کون سے بزرگ آتے ہیں یہ آگے چل کر عرض کروں گا ,
سوال میں ایک بات اور قابل غور ہے کہ بقول سائل یہ طریقہ فتاویٰ عزیزی میں مذکور ہے مگر اس کے باوجود بھی گنگوہی صاحب کا قلم بدعت لکھے بغیر رہ نہ سکا اور یوں شاہ عبدالعزیز محدّث دہلوی جیسی علمی شخصیت کے سر بدعت کا تاج سجا دیا گیا. (انا للہ وانا الیہ راجعون)

وَإِنَّ كَثِيرًا لَّيُضِلُّونَ بِأَهْوَائِهِم بِغَيْرِ عِلْمٍ ۗ

یہاں پر "قسط اول" ختم ہوئی بقیہ مضمون اگلی قسط میں ملاحظہ فرمائیں

ازقلم
غلام حسین نقشبندی غفرلہ
17 = 10 = 2016 بروز پیر شریف
رابطہ = 0300 7650062

اتوار، 2 اکتوبر، 2016

سیدنا عمر فاروقؓ کے یوم شھادت کی صحیح تاریخ

بسم اللہ الرحمنٰ الرحیم!

قارئین محترم!
ہم ایسے نازک دور سے گزر رہے ہیں جس میں بغیر تگ و دو حق تک پہنچنا مشکل نظر آتا ہے عقائد و نظریات کے ایسے ایسے بازار گرم ہیں کہ بآسانی حق کو پہچاننا بعید ہے!
جہاں ایمانیات میں صحیح و غلط کی کچھڑی تیار کی جارہی ہے وہیں پر تاریخ کے اس رُخ کو بھی مسخ کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی جس کا ایمانیات سے کچھ تعلق نہیں مثلاً

حضور نبی کریمﷺ کی تاریخ ولادت جمہور کے مطابق 12 ربیع الاول ہونے کے باوجود کسی اور تاریخ پر بضد ہونا

(ملاحظہ ہو http://hafiznaqshbandi.blogspot.com/2015/12/(blog-post_20.html?m=1

مولائے کائنات کرم اللہ وجہہ الکریم کو بغیر دلیل کے  مولود کعبہ یقین کرنا

(مللاحظہ ہو http://hafiznaqshbandi.blogspot.com/2016/07/blog-post_73.html?m=1)

اسی طرح امیر المؤمنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے یوم شھادت کو سوچی سمجھی شرارت کے باوجود یکم محرم کے ساتھ خاص کرنا نہ صرف یہ بلکہ یکم محرم نہ ماننے والوں کو برا بھلا کہنا
اس کو تاریخ کے ساتھ ظلم سے تعبیر نہ کریں تو اور کیا کہیں ؟

کوشش کے باوجود بھی "یکم محرم" کی کوئی روایت ہمیں نہیں ملی البتہ متاخرین میں سے جن کتب میں یکم محرم درج ہے وہاں اس کا مآخذ موجود نہیں!

اب ہمارے موقف پر ملاحظہ ہو حوالہ نمبر 1#

مشہور مؤرخ امام ابن اثیر علیہ الرحمتہ (متوفی٦٣٠ھ) اپنی مشہور زمانہ کتاب "اسد الغابہ فی معرفتہ الصحابہ" میں سیدنا فاروق اعظمؓ کا یوم شھادت یوں بیان کرتے ہیں!

"روی ابوبکر بن اسماعیل عن ابیہ قال طعن عمر یوم الاربعاء لاربع لیال بقین من ذی الحجتہ سنتہ ثلاث وعشرین ودفن یوم الاحد صباح ھلال المحرم سنتہ اربع وعشرین"

ابوبکر بن اسماعیل اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ سیدنا عمرؓ کو زخم آیاد بدھ کے دن ذی الحج کی چار راتیں باقی تھیں اور سال تھا ٢٣ ھجری اور دفن کئے گئے اتوار کے دن محرم کی پہلی کو سن تھا ٢٤ ھجری!

"وقال عثمان الاخنسی ھذا وھم توفی عمر لاربع لیال بقین من ذی الحجتہ وبویع عثمان یوم الاثنتین للیلتہ بقیت من ذی الحجتہ"

عثمان اخنسی کہتے ہیں کہ یہ وھم ہے (یعنی جو پہلے بیان ہوا) سیدنا عمرؓ کی وفات ہوگئی تھی جبکہ ذی الحج کی چار راتیں باقی تھیں یعنی 26 ذی الحج کو اور سیدنا عثمانؓ کی بیعت ہوگئی تھی جبکہ ذی الحج کی ایک رات باقی تھی!

اس کے بعد قتیبہ کی وہی روایت ہے جس کو وھم قرار دیا گیا ہے!

أسد الغابہ فی معرفتہ الصحابہ صفحہ ٩١٤
مطبوعہ دار ابن حزم بیروت لبنان

حوالہ نمبر 2#

یہی امام ابن اثیر اپنی دوسری شہرۂ آفاق تصنیف "الکامل فی التاریخ" المعروف تاریخ ابن اثیر میں نقل فرماتے ہیں!

"ان توفی لیلتہ الاربعاء لثلاث بقین من ذی الحجتہ سنتہ ثلاث وعشرین وقیل طعن یوم الاربعاء لاربع بقین من ذی الحجتہ ودفن یوم الاحد ھلال محرم"

یعنی سیدنا عمر فاروقؓ شہید ہوئے بدھ کی رات جبکہ ذی الحج کی تین راتیں باقی تھیں اور سال تھا ٢٣ھجری آگے بعض کہتے ہیں سے وہی عبارت ہے جس کو اوپر وہم قرار دیا گیا ہے!

الکامل فی التاریخ جلد ٢ صفحہ٤٤٨
مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان

حوالہ نمبر 3#

مشہور و قدیم سیرت نگار محمد بن سعد الزھری علیہ الرحمتہ (متوفی٢٣٠ھ) نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب "طبقات الکبیر" المعروف طبقات ابن سعد میں وہی "ابوبکر بن اسماعیل" اور "عثمان الاخنسی" والی دو روایتیں نقل فرمائی ہیں جو "اسد الغابہ" کے حوالہ سے اوپر گزر چکیں!

کتاب الطبقات الکبیر جلد٣ صفحہ٣٣٨
مطبوعہ مکتبہ الخانجی بالقاھرہ

طبقات ابن سعد (مترجم) جلد دوم صفحہ123
مطبوعہ نفیس اکیڈمی کراچی

حوالہ نمبر 4#

مشہور محدث امام ابوبکر البیہقی علیہ الرحمتہ (متوفی٤٥٧ھ) اپنی مشہور زمانہ کتاب "السنن الکبریٰ" میں یوں رقمطراز ہیں!

"ومات یوم الاربعاء لاربع بقین من ذی الحجتہ"

کہ سیدنا فاروق اعظمؓ بدھ کے دن فوت ہوئے جبکہ ذی الحج کے چار دن باقی تھے یعنی 26 ذی الحج کو شہادت ہوئی!

السنن الکبریٰ للبیہقی صفحہ٢٥٨ رقم الحدیث١٦٥٧٨
مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان

حوالہ نمبر 5#

مشہور مفسر و مؤرخ امام ابن جریر الطبری علیہ الرحمتہ (متوفی٣١٠ھ) نے اپنی مشہور تصنیف "تاریخ الامم والملوک" المعروف تاریخ طبری میں مختلف اقوال نقل فرمائے ہیں!

پہلا یہ کہ ذی الحج میں تین دن باقی تھے کہ آپ فوت ہوگئے
دوسرا ابوبکر بن اسماعیل والا جو پہلے ذکر ہو چکا
تیسرا عثمان اخنسی والا وہ بھی پہبے گزر چکا
چوتھا ابی معشر کا قول کہ آپ 26 ذی الحج کو فوت ہوئے
پانچواں ابن شھاب زہری کا کہ حملہ 23 ذی الحج کو ہوا اور وفات تین دن بعد یعنی 26 کو ہوئی
چھٹا ہشام بن محمد کا کہ آپ فوت ہوئے جبکہ ذی الحج کی تین راتیں باقی تھیں!

تاریخ الطبری صفحہ ٧٠٣ ٧٠٤
مطبوعہ بیت الافکار الدولیہ الریاض

حوالہ نمبر 6#

امام ابن الاثیر الجزری علیہ الرحمتہ (متوفی٦٠٦ھ) فرماتے ہیں!

کہ آپ کو زخم 26 ذی الحج کو بدھ والے دن لگا جبکہ آپ کو محرم کے دن اتوار کو دفن کیا گیا

جامع الاصول فی احادیث الرسول جلد١٢ صفحہ١٢٣
مطبوعہ دارالفکر بیروت لبنان

حوالہ نمبر 7#

امام احمد القلقشندی علیہ الرحمتہ (متوفی٨٢١ھ) فرماتے ہیں!

کہ آپ 26 ذی الحج کو فوت ہوئے!

نھایتہ الارب فی معرفتہ انساب العرب صفحہ١٥٢
مطبوعہ دارالکتاب البنانی بیروت

حوالہ نمبر 8#

مشہور مؤرخ اور مفسر ابو الفداء ابن کثیر (متوفی٧٧٤ھ) مختلف اقوال لکھتے ہیں!

پہلا وہی ابوبکر بن اسماعیل والا
دوسرا وہی عثمان الاخنسی والا
تیسرا  ابو معشر کا جو طبری کے حوالہ سے پہلے بیان ہوا
چوتھا
ھشام بن محمد کا یہ بھی طبری کے حوالہ سے گزر چکا

پانچواں زہری کا یہ بھی طبری کے حوالہ سے ذکر ہو چکا
اقوال نقل کرنے کے بعد ابن کثیر اپنی رائے یوں بیان کرتے ہیں کہ

"والقول الاول ھو الاشھر"
یعنی پہلا قول زیادہ مشہور ہے کہ زخم 26 کو لگا اور دفن یکم محرم کو ہوئے

البدایہ والنہایہ جلد٧ صفحہ٢٦٩
مطبوعہ دار ابن کثیر دمشق بیروت

حوالہ نمبر 9#

امام ابی الفرج ابن جوزی علیہ الرحمتہ (متوفی٥٩٧ھ) صاحب طبقات محمد بن سعد ہی کا قول نقل کرتے ہیں کہ

زخم 26 کو لگا اور دفن یکم محرم کو ہوئے

مناقب امیر المومنین عمر بن خطاب صفحہ٢٢٠

حوالہ نمبر 10#

امام جلال الدین السیوطی علیہ الرحمتہ (متوفی٩١١ھ) اپنی شہرہ آفاق کتاب "تاریخ الخلفاء" میں لکھتے ہیں کہ

آپ پر مصیبت 26 کو آئی اور آپ دفن یکم محرم کو ہوئے

تاریخ الخلفاء للسیوطی صفحہ٢٤٤
مطبوعہ وزارتہ الاوقاف دولتہ قطر

تاریخ الخلفاء اردو صفحہ 310
مطبوعہ پروگریسو بکس لاہور

حوالہ نمبر 11#

امام ابن حجر مکی ہیتمی علیہ الرحمتہ(متوفی٩٧٤ھ) اپنی مایہ ناز تصنیف "الصواعق المحرقہ" میں فرماتے ہیں کہ

"فماانسلخ ذو الحجتہ حتی قتل"

پس ذوالحج ابھی گزرا نہیں تھا کہ آپ قتل کر دیئے گئے
اور اگلے صفحے پر دوسرا قول نقل کرتے ہیں کہ زخم آپ کو 26 کو لگا بدھ کے دن اور آپ کو اتوار کے دن دفن کیا گیا

الصواعق المحرقہ الباب السادس صفحہ٣١٥ ٣١٧
مطبوعہ

الصواعق المحرقہ مترجم صفحہ٢٧٢ ٢٧٤
مطبوعہ شبیر برادرز لاہور

حوالہ نمبر 12#

امام عبدالرحمن الصفوری علیہ الرحمتہ (متوفی٩٠٠ھ) لکھتے ہیں!

کہ آپ پر 23 کو حملہ ہوا اور آپ 26 کو شہید ہوئے!

نزھتہ المجالس الجزء الثانی صفحہ٤٢٣
مطبوعہ المکتب الثقافی

نزہتہ المجالس مترجم جلد2 صفحہ٤٧٤
مطبوعہ شبیر برادرز لاہور

حوالہ نمبر 13#

امام ابن النجار علیہ الرحمتہ (متوفی٦٤٢ھ) فرماتے ہیں!

آپ کی وفات 26 ذی الحج کو ہوئی

الدرتہ الثمینہ فی تاریخ المدینہ صفحہ٢١٠
مطبوعہ مکتبتہ الثقافتہ الدینیہ

حوالہ نمبر 14#

امام ابی زید عمر بن شبہ النمیری البصیری علیہ الرحمتہ (متوفی٢٦٢ھ) فرماتے ہیں!

کہ آپ 26 ذوالحج کو فوت ہوئے

کتاب اخبار المدینتہ النبویہ جلد٣ صفحہ١١٢
مطبوعہ دارالعلیّان

حوالہ نمبر 15#

مؤرخ ابو الحسن المسعودی (متوفی٣٤٦ھ) لکھتے ہیں کہ

آپ کو 26 ذوالحج کو قتل کیا گیا

مروج الذھب ومعادن الجوھر جلد٢ صفحہ٢٤٠
مطبوعہ المکتبتہ العصریہ بیروت

حوالہ نمبر 16#

برصغیر کی معروف شخصیت مفسر و محدث شاہ عبدالعزیر دہلوی علیہ الرحمتہ فرماتے ہیں!

"رہا تاریخ کا معاملہ تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت بلا اختلاف ٢٨ ذی الحجہ کو واقع ہوئی اور یکم محرم کو آپ مدفون ہوئے!

تحفہ اثنا عشریہ اردو صفحہ ٤٩٣
مطبوعہ دارالاشاعت کراچی

حوالہ نمبر 17 #

سیرت نگار محمد رضا مصری لکھتے ہیں!

"٢٤ ذی الحجتہ سنتہ ٢٣ ھ"

الفاروق عمر بن خطاب صفحہ ٣١٤
مطبوعہ المحمودیتہ التجاریتہ بالازھر

حوالہ نمبر 18#

مشہور محقق شعیب الارنؤوط لکھتے ہیں!

26 کو آپ کے دشمن نے ضرب لگائی اور تین دن بعد آپ فوت ہوگئے

حاشیہ المسند الامام احمد بن حنبل تحت الرقم٨٢
جلد ١ صفحہ ٢٤٤ مطبوعہ مؤسستہ الرسالتہ

حوالہ نمبر 19#

معروف سیرت نگار علامہ شبلی نعمانی دیوبندی لکھتے ہیں!

"حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت ٢٦ ذوالحجہ"

الفاروق صفحہ ١٦٦
مطبوعہ دارالاشاعت کراچی

ابھی بھی کچھ حوالے ایسے ہیں جو کتب کی عدم دستیابی کی بناء پر یہاں درج نہیں کئے جاسکتے مگر جیسے ہی وہ کتب دستیاب ہوں گی یہاں اضافہ کر دیا جائے گا (ان شاءاللہ)

طالب دعا
غلام حسین نقشبندی
hafiz.zain.9256@facebook.com