بدھ، 20 اپریل، 2016

مولا علیؓ کو مولود کعبہ ماننے والوں کی دوسری دلیل اور اس پر نقد





بسم اللہ الرحمٰن الرحیم!
اس سے پہلے بلاگ میں "مستدرک" کا جواب دیا جا چکا ہے!
یہ رہا اس کا لنک
http://hafiznaqshbandi.blogspot.com/2016/04/blog-post_19.html?m=1
اس بلاگ میں دوسری دلیل پر نقد پیش خدمت ہے
مولائے کائنات کو مولود کعبہ ثابت کرنے کیلئے "نزہتہ المجالس" سے ایک واقعہ پیش کیا جاتا ہے ہم نے نزہتہ المجالس کے عربی اردو دونوں صفحات کا اسکین پیش کردیا ہے تاکہ معاملہ مشکوک نہ ٹھہرے اور قاری کو آسانی رہے!
نزہتہ المجالس کے مصنف امام عبد الرحمان بن عبدالسلام صفوری شافعی علیہ الرحمتہ ہیں جو کہ اپنے وقت کے مشہور خطباء میں سے ہیں اور آپ کی تاریخ وفات ٩٠٠ ھجری ہے
آپ نے مولائے کائنات کے مولود کعبہ والا واقعہ "الفصول المہمہ" نامی کتاب سے بغیر سند کے نقل کیا لہذا امام صفوری کا اس واقعہ کو بغیر سند کے نقل کرنا دلیل نہیں بن سکتا
دوسری بات یہ کہ اس بے سند واقعہ میں کعبہ میں پیدا ہونے کو مولا علیؓ کی خصوصیت بتایا جا رہا ہے اور صاف الفاظ ہیں کہ یہ فضیلت کسی اور کو نہیں ملی حالانکہ صحیح روایات سے ثابت ہے کہ صحابی حکیم بن حزام رضیﷲعنہ  کعبہ میں پیدا ہوئے
(جلد ہی اس کے تمام حوالہ جات اسکین پیجز کے ساتھ اپلوڈ کئے جائیں گے لہذا آپ ہماری بلاگ سائٹ کا وزٹ کرتے رہیں)
hafiznaqshbandi.blogspot.com
تو صحیح روایات کی موجودگی میں ایسے بے سند واقعات سے کعبہ میں ولادت کو مولا علیؓ کے ساتھ خاص کرنا ایسے ہی ہے جیسے دن کے وقت آنکھیں بند کرکے سورج کی نفی کرنا اور رات ہونے پر ضد کرنا (فافھم)
رہی بات "الفصول" کی تو اس کا حال بندے کو معلوم نہیں جستجو کرنے پر بھی یہ کتاب دستیاب نہ ہوسکی (جیسے ہی دستیاب ہوگئی تو اس کو مکمل دیانتداری سے پیش کردیا جائے گا)
البتہ قارئین میں سے کسی کے پاس یہ کتاب ہوتو ہمیں "مولود کعبہ" والا مذکورہ واقعہ مع سند اسکین کروا کر عنایت کردیں تاکہ اس کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ لیا جاسکے
لیکن جب تک مذکورہ واقعہ جو نزہتہ المجالس میں الفصول المہمہ کے حوالے سے نقل کیا گیا اس کی سند نہ مل جائے تب تک اس واقعہ کو دلیل ہرگز نہیں بنایا جاسکتا.
طالب دعا
غلام حسین نقشبندی
hafiz.zain.9256@facebook.com


منگل، 19 اپریل، 2016

مولا علیؓ کو مولود کعبہ ماننے والوں کی پہلی دلیل اور اس پر نقد



بسم اللہ الرحمان الرحیم!
ہم اہلسنت اللہ والوں کی ہر خوبی و شان کو دل و جان سے تسلیم کرتے ہیں پھر چاہے اس خوبی و شان کا تعلق فضائل سے ہو یا خصائص سے
لیکن تسلیم کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کسی ہستی کے متعلق شہرت پا جانے والی غلط فہمی کو اس کی فضیلت یا خصوصیت مان لیا جائے اور اس کے انکار پر لعن طعن کیا جائے (العیاذباللہ)
جہاں مولا علیؓ کی طرف اور بہت سی باتیں غلط منسوب ہیں وہاں پر یہ بات بھی بڑے زور و شور سے کی جاتی ہے کہ مولائے کائنات کی ولادت کعبہ میں ہوئی ہے اور نہ صرف یہ کہا جاتا ہے بلکہ اس کو بنیاد بنا کر مولا علیؓ کی شان میں غلو کی حد کردی جاتی ہے اور کعبہ میں ولادت کو مولائے کائنات کی خصوصیت بھی قرار دیا جاتا ہے حالانکہ حقیقت اس سے کوسوں دور ہے,
بہر کیف!
مولا علی رضیﷲعنہ  کے مولود کعبہ ہونے پر جو پہلی دلیل پیش کی جاتی ہے وہ حاکم نیشاپوری کا قول ہے:

حاکم کہتے ہیں!
"فقد تواتر الاخبار ان فاطمتہ بنت اسد ولدت امیر المؤمنین علی بن ابی طالب کرم اللہ وجھہہ فی جوف الکعبہ"
پس تحقیق اخبار متواترہ سے ثابت ہے کہ فاطمہ بنت اسد (رضیﷲعنہا) نے امیر المومنین علی بن ابی طالب کرمﷲوجھہہ کو کعبہ میں جنم دیا

المستدرک علی الصحیحین
الجزء الثالث کتاب معرفتہ الصحابہ
الرقم٦٠٤٤ صفحہ٥٥٠ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان

اس قول کو بطور دلیل پیش کرنا کم فہمی ہے کیونکہ حاکم یہاں تو تواتر کا دعویٰ کر رہے ہیں اور فضائل علیؓ کے باب میں ایک بھی صحیح بلکہ صحیح تو دور ایک ضعیف روایت بھی پیش کرنے کی جرأت نہ کرسکے جس میں حاکم کے دعوے کی دلیل ہو تو فقط حاکم کے کہنے پر متواتر کون مانے؟
جب کہ حاکم کی تاریخ وفات ٤٠٥ ھجری ہے
اب ایک واقعہ جو کہ حاکم کی پیدائش سے بھی کئی سو سال پہلے کا ہے اس واقعہ کو حاکم کے کہنے پر تسلیم کرنا اور نہ صرف تسلیم بلکہ متواتر کہنا نا انصافی ہوگا
دوسری بات یہ کہ اس کے تواتر کے دعوے میں حاکم منفرد ہیں ان کے سوا محدثین میں سے کسی نے اس واقعہ کے تواتر کا دعویٰ نہیں کیا,
تیسری اور اہم بات یہ کہ اہل علم جانتے ہیں کہ حاکم نیم شیعہ تھے اور ان کا تواتر کا دعویٰ اسی سلسلے کی ایک کڑی بھی ہوسکتا ہے,
نوٹ
بہت جلد اگلے بلاگ میں بقیہ دلائل پر نقد بھی پیش کیا جائے گا ان شاءﷲ
طالب دعا
غلام حسین نقشبندی
hafiz.zain.9256@facebook.com


پیر، 11 اپریل، 2016

افضلیت سیدنا ابوبکر صدیقؓ پر چودہ صدیوں کا اجماع امت

پہلی اور دوسری صدی
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=448596422004307&id=100005618585673
تیسری صدی
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=452684611595488&id=100005618585673
چوتھی صدی
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=453464771517472&id=100005618585673
پانچویں صدی
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=457582241105725&id=100005618585673
چھٹی صدی
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=464744630389486&id=100005618585673
ساتویں صدی
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=465099077020708&id=100005618585673
آٹھویں صدی
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=465783936952222&id=100005618585673
نویں صدی
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=466147003582582&id=100005618585673
دسویں صدی
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=466389840224965&id=100005618585673
گیارہویں صدی
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=467102400153709&id=100005618585673
بارہویں صدی
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=467473510116598&id=100005618585673
تیرہویں صدی
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=467534716777144&id=100005618585673
چودھویں صدی سے اب تک
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=467810796749536&id=100005618585673