ہفتہ، 14 نومبر، 2015

اذان کے اوّل آخر درود و سلام

بسمﷲ الرحمان الرحیم !
صلوٰة و سلام اذان سے پہلے پڑھا جائے یا بعد میں پڑھا جائے بالکل جائز ہے بلکہ ایک مستحب عمل ہے,
دلائل ملاحظہ ہوں !
دلیل نمبر 1 _ قران عظیم میں اہل ایمان کو حکم دیا کہ
(ترجمہ) اے ایمان والو تم نبی کریم ﷺ (کی ذات گرامی) پر صلوٰة اور خوب سلام پڑھو (سورہ احزاب پارہ ٢٢)
یہ حکم مطلق ہے اس میں وقت کی کوئی قید نہیں لہذا جس وقت بھی صلوٰة و سلام پڑھا جائے گا ﷲ تعالیٰ کے اس حکم کی تعمیل ہوگی اذان سے قبل یا بعد کا وقت بھی اس میں شامل ہے.
(المطلق یجری علی اطلاقہ)
دلیل نمبر ٢ _ حدیث شریف میں ہے
" کل امر ذی بال لم یبدا فیہ بحمدﷲ والصلوٰة علی فھو اقطع وابتر ممحوق من کل برکاتہ "
یعنی ہر ذیشان اور اچھا کام جس کی ابتداء ﷲ تعالیٰ کی حمد اور مجھ پر درود پڑھنے سے نہ کی جائے وہ کام ناتمام اور ہر برکت سے خالی ہوگا.
(جامع الصغیر ج٢ ص٩١ , نیل الاوطار از قاضی شوکانی ص١٨)
معلوم ہوا کہ اذان سے پہلے صلوٰة پڑھنا اس حدیث کے عین مطابق ہے اس لئے کہ اذان بھی ایک امر ذیشان ہے لہذا اس سے پہلے صلوٰة و سلام پڑھنا باعث برکت ہے جیسا کہ اذان یا کسی بھی اچھے اور جائز کام سے پہلے
" بسمﷲ الرحمان الرحیم "
اور حمد الہی پڑھنا باعث برکت ہے احادیث میں اس کا بھی حکم ہے.
اذان سے پہلے صلوٰة و سلام پڑھنا اضان میں اضافہ اور زیادتی نہیں اس لئے کہ اذان کے کلمات مشہور و معروف ہیں اور خاص و عام کو اس بات کا علم ہے کہ ادان "ﷲاکبر" سے شروع ہوتی ہے اور "لاالہ الاﷲ" پر ختم ہوجاتی ہے لہذا اس سے پہلے یا بعد میں صلوٰة و سلام پڑھنے سے زیادتی کا وہم نہیں ہوسکتا جیسا کہ تلاوت قران سے پہلے "تعوذ و تسمیہ" اور اختتام پر "صدقﷲالعظیم" کے کلمات کثیرہ ادا کئے جاتے ہیں.
دلیل نمبر ٣ حدیث شریف میں ہے!
" اذا سمعتم الموذن فقولو مثل مایقول ثم صلو علیّ "
جب تم مؤذن سے اذان سنو تو اس کی مثل کلمات کہو پھر مجھ پر درود پڑھو (اس کے بعد دعا وسیلہ کا ذکر ہے)
مسلم شریف ج١ ص١٦٦
اذان کے بعد درود شریف پڑھنے اور دعا وسیلہ کا حکم جس طرح اذان سننے والوں کیلئے ہے اسی طرح یہ حکم اذان پڑھنے والے کو بھی شامل ہے تو اگر اذان کے بعد دعا وسیلہ سے پہلے درود شریف پڑھنے سے اذان میں اضافہ نہیں ہوتا بلکہ حدیث رسول ﷺ کے عین مطابق ہے تو اذان سے پہلے صلوٰة و سلام پڑھنے سے بھی اذان میں اضافہ اور زیادتی نہیں ہوگی,کیونکہ اضافہ و زیادتی اذان سے پہلے جائز ہے نہ بعد میں الحمدللہ اہلسنت کا دامن اس زیادتی سے پاک ہے. !
اضافہ اور زیادتی کا معنی
عنایہ شرح ہدایہ ج١ ص٤٢٤ پر ہے
" ان الزیادة علی الشیء انما تتحقق اذا کانت من جنس المزید علیہ "
یعنی کسی شے میں زیادتی اس وقت متصور ہوتی ہے جب کہ وہ مزید علیہ (جس پر زیادتی کی گئی ہے اس) کی جنس سے ہو
تو جب اذان کے کلمات اور درود و سلام کے صیغے الگ الگ اور دونوں کا لب و لہجہ بھی جدا ہے تو اس سے پہلے درود شریف کا پڑھنا اضافہ اور زیادتی کیسے ہوسکتا ہے۔؟
پھر بھی ہمارے علماء اہلسنت وجماعت قدرے وقفہ و فصل کا حکم دیتے ہیں تاکہ کوئی جاہل اپنی نادانی سے اسے اذان کا جز نہ سمجھ بیٹھے.
دلیل نمبر ٤ _ حضرت سیدنا بلال رضیﷲعنہ کا طریقہ
حضرت بلال رضیﷲعنہ اذان فجر سے پہلے ہمیشہ یہ دعا پڑھتے تھے.
" اللھم انی احمدک واستعینک علی قریش ان یقیموا دینک ثم یؤذن قالت وﷲ ما علمتہ کان ترکھا لیلتہ واحدة ھذہ الکلمات "
اے ﷲ بیشک میں تیری حمد کرتا ہوں اور تجھ سے قریش پر مدد مانگتا ہوں کہ قریش تیرے دین کو قائم کریں پھر اذان دیتے (صحابیہ راویہ) فرماتی ہیں ﷲ کی قسم حضرت بلال رضیﷲعنہ نے کسی ایک رات بھی ان کلمات کو نہیں چھوڑا.
(ابوداؤد شریف ص٧٧)
اذان سے پہلے قریش کیلئے دعا کرنا حضرت بلال حبشی رضیﷲعنہ مؤذن رسول ﷺ کی سنت سے ثابت ہے اور صلوٰة خود دعا ہے جو کہ امتی اپنی غلامی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے نبی کیلئے کرتا ہے جب اذان سے پہلے قریش کیلئے دعا کرنا جائز ہے تو قریش کے سردار سیدعالم ﷺ کیلئے دعا کرنا بدرجۂ اولیٰ جائز ہے.
معلوم ہوا اذان سے پہلے صلوٰة و سلام پڑھنا قرآن عظیم کے حکم (صلواعلیہ) پر عمل اور حدیث رسول ﷺ کی تعمیل اور حضرت بلال رضیﷲعنہ کی سنت کے عین مطابق ہے.
اس پر منع کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے.
مانعین آج تک اس کی ممانعت پر نہ قرآن عظیم کی کوئی آیت پیش کرسکتے ہیں اور نہ کوئی صحیح حدیث جس میں صراحتہً اذان سے پہلے صلوٰة و سلام سے منع کیا گیا ہو انشاءﷲ قیامت تک پیش نہ کرسکیں گے.
جو شریعت میں منع نہ ہو وہ جائز ہے حدیث شریف میں ہے.
" الحلال مااحلﷲ فی کتابہ والحرام ما حرمﷲ فی کتابہ وما سکت عنہ فھو مما عفی عنہ "
یعنی حلال وہ ہے جس کو ﷲ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حلال فرمایا اور حرام وہ ہے جس کو ﷲ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حرام فرمایا اور جس کو بیان نہ فرمایا وہ جائز ہے.
(ترمذی شریف)
مزید دیوبندیوں کے حکیم الامت تھانوی صاحب لکھتے ہیں جو فعل نہ مامور بہ ہو نہ منہی عنہ یعنی نصوص شرعیہ میں نہ اس کے کرنے کی ترغیب ہو اور نہ اس کے کرنے کی ممانعت ہو ایسا امر مباح ہوتا ہے.
(باب جنت ص١١٤)
معلوم ہوا جس کام سے شریعت نے منع نہ کیا ہو اس سے روکنے کا کسی کو اختیار نہیں ہے اور صلوٰة و سلام کی تو قران و حدیث میں ترغیب بلکہ حکم شرعی بھی موجود ہے تو اس سے منع کرنا شریعت مطہرہ سے کھلی بغاوت ہے.
نوٹ!.....
ناقل (غلام حسین نقشبندی) نے یہ مضمون مجلّہ "فکر سواد اعظم" ج٤ شمارہ نمبر١١ نمبر٢٨ ذوالحجہ١٤٣٦ھ سے نقل کیا گیا ہے!

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں