****** عیسائی دوستوں کو دعوت فکر ******
ازقلم:- امام المناظرین بحرالعلوم فاتح مناظرۂ جھنگ اشرف العلماء محمد اشرف سیالوی رضی اللہ عنہ
بائبل کی مکمل کہانی !
" پھر خداوند نے ابراہام سے کہا سارہ نے ہنس کر یہ کیوں کہا کہ میرے ہاں واقعی بچہ ہوگا جب کہ میں ضعیفہ ہو چکی ہوں (١٣)
سارہ ڈر گئی اس لئے اس نے جھوٹ بولا اور انکار کیا کہ میں تو نہیں ہنسی (١٥)
{ پیدائش باب١٨ - ١٣ تا ١٥ }
اس عبارت پر ذرا غور فرماویں کہ حضرت سارہ باوجود ہنسنے کے مُکر گئیں اور انکار کر دیا جبکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ان کے ہنسنے کی خبر اللہ تعالیٰ نے دی تھی تو گویا انہوں نے صرف یہ نہیں کہ خود جھوٹ بولا بلکہ اللہ تعالیٰ کی خبر کو جھوٹ قرار دیا اور بایں ہمہ اللہ تعالیٰ کے خلیل نے ان کے ساتھ کوئی تادیبی کاروائی نہ فرمائی جس سے ان کا بھی بیوی کی رعایت میں خق خداوند تعالیٰ کو نظر انداز کرنا لازم آتا ہے حالانکہ یہ امر منصب خِلَّت کے سراسر خلاف ہےخلیل خدا تو صرف وہی ہو سکتا ہے جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی دوسرے کی محبت کا غلبہ و تسلط نہ ہو.
علاوہ ازیں جو علت اور وجہ بیان کی گئی ہے کہ وہ ڈرتی تھیں یہ بھی محلِ نظر ہے کیونکہ انکار اور مُکر جانا وہاں کام دے سکتا ہے جہاں مخاطب اور متعلقہ اشخاص کو حقیقت حال کا علم نہ ہو خلیل خدا کے متعلق یہ سوچ کہ ان کو حقیقت کا کیا علم؟
حضرت سارہ جیسی شخصیت سے بہت بعید ہے اور اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ تخیل بھی ناقابلِ تصوّر ہے علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ سے ڈر اور خوف کا تقاضا مُکر جانا تو نہیں ہوسکتا بلکہ اس کا تقاضا عفو اور درگزر کا مطالبہ کرنا ہے لہذا اس عبارت میں حضرت سارہ کے عقیدہ کا جو نقشہ کھینچا گیا ہے وہ ان کی عظمت شان کے سراسر خلاف ہے بلکہ ان پر بہتان ہے اور ان کے خاوند اور اولاد پر بھی الزام بلکہ بہتان ہے۔
اسلامی نقطۂ نظر
قرآن مجید نے ان کا ہنسنا بھی بیان کیا اور اس کا سبب بھی اور فرشتوں کا ان کی تسلّی کرنا بھی جس سے ان کا, ان کے خاوند اور اولاد کی اولاد کا مرتبہ و مقام پوری طرح محفوظ ہوجاتا ہے
سورہ ھود آیت ٧١,٧٢,٧٣
"اور ابراہیم علیہ السلام کی بیوی کھڑی تھی پس ہنسی تو ہم نے اس کو اسحاق کی بشارت دی اور اسحاق کے بعد یعقوب کی اس نے کہا اے ہلاکت میری
کیا میں بچے کو جنم دوں گی حالانکہ میں بالکل بوڑھی ہوں اور میرا یہ خاوند بھی عمر رسیدہ ہے بیشک یہ بات عجیب ہے فرشتوں نے کہا کیا تو اللہ تعالیٰ کے امر سے تعجب کرتی ہےاللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کی برکات تم پر ہوں اے اہلبیت بیشک وہ ہمیشہ کیلئے قابلِ ستائش ہے اور بزرگی والا"
کلام مجید کے ان کلمات کو غور سے پڑھیں تو کس قدر حضرت سارہ کا دامن کذب اور غلط بیانی سے پاک نظر آتا ہے اور اس میں کس قدر خاندان نبوت کی عظمت و مرتبت کا اظہار ہے
لہذا بلا خوفِ تردید کہا جاسکتا ہے کہ صرف اسلام اور قرآن نے اور محمد الرسول اللہﷺ نے ہی انبیآء و رسل علیھم السلام کی عزت و حرمت اور عظمت و رفعت کا تحفظ کیا ہے اور دیگر مذاہب اور ان کی کتب نے الزام۔تراشی اور افتراء پردازی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا اور ان مقدس ہستیوں کو بدنام کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی.
دی ہولی بائبل اور شان انبیاء میں گستاخیاں
صفحہ ١٠ , ١١ مطبوعہ اہل السنتہ جہلم
فیصلہ آپ کریں کہ انبیاء کرام کی عزت کا محافظ کون؟
اسلام یا عیسائیت ؟ ؟ ؟
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں