جمعرات، 10 دسمبر، 2015

دل دوز تحریر !

بسم ﷲ الرحمٰن الرحیم !

تحریر !
عزیزم غلام نبی نوری صاحب
زید شرفہ

"ماما!آپ سنتی کیوں نہیں؟اتنی دیر سے آوازیں دے رہا ہوں،بول بول کر میرا گلا خشک ہوگیا ہے۔"
خرم نے کچن میں آکر بدتمیزی سے کہا۔
"بیٹا!اتنا اونچا ٹی وی لگاتے ہو،آواز کیسے مجھے آنی ہے؟کہو،کیا بات ہے؟ "ماما نے پیار سے پوچھا۔
"اتنی دیر سے پیاس لگی ہے،مجھے پانی دے دیں۔"خرم نے تحکمانہ انداز میں کہا۔
ماماگلاس میں پانی ڈا ل کر اسے دینے کے لئے مڑیں تو وہ اپنے کمرے میں جاچکا تھا۔اس کا مطلب تھا کہ پانی اس کے کمرے میں پہنچایا جائے اورماما نے اسے کمرے میں جا کر پانی دے دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خرم کی عمر بارہ سال تھی،والد نے اس کے بچپن میں ہی اس کی ماں کو طلاق دے کر دوسری شادی کرلی تھی،اس کا کوئی اور بہن بھائی بھی نہ تھا،گھر کا نظام اس کے والد کی طرف سے دیے گئے ماہانہ خرچے سے بخوبی چل رہا تھا۔وقت گزرتا جارہا تھا اور خرم کی خودسری بڑھتی جارہی تھی۔کوئی روک ٹوک نہیں تھی،حکم چلانے اور من مانی کرنے کی عادت پڑ چکی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ماما!یہ کیا؟ایسا ہوتا ہے فرائی انڈا،کبھی آپ زردی سخت کردیتی ہے اور کبھی بالکل کچی رہنے دیتی ہیں،ایسے ناشتے سے بہتر ہے کہ میں بھوکا ہی کالج چلا جاؤں۔"خرم غصے سے پیر پٹختا ہوا کالج کے لئے نکل گیا۔
یہ ایک دو دن نہیں بلکہ روزانہ کا ہی معمول تھا۔ہر چیز اس کی مرضی کے مطابق ہونی چاہئے ورنہ اس کی برداشت جواب دے جاتی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دن گزرتے گئے،وہ جوان اور ماں بوڑھی اور کمزور ہوتی گئیں۔
"ماما!یہ کیا؟جرابوں کا جوڑا ہی نہیں مل رہا۔آپ میری جرابیں نہیں سنبھال سکتیں،آخر آپ کیا کرتی رہتی ہیں جو صرف ایک میرے کام بھی صحیح طرح نہیں کرسکتیں۔"خرم غصے میں منہ بسورتے ہوئے یونیورسٹی کے لئے نکل گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات گئے اس کی گھر واپسی ہوئی،یہ اس کا روز کا معمول تھا،پہلے یونیورسٹی اور پھر آوارہ گردی۔
ماں باہر کھڑی اس کی راہ تک رہی تھیں،اس کو دور سے دیکھتے ہی ڈر سے اندر چلی گئیں۔
"ماما!میں بچہ نہیں ہوں،یوں باہر نہ کھڑا ہواکریں،اور مجھے موبائل پر کال بھی نہ کیا کریں،میرے دوست مذاق اڑاتے ہیں۔"
گھر داخل ہوتے ہی خرم سلام دعا کئے بغیر ہی ماں سے ناراض ہونے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"صاحب!میں آپ سے ایک بات کرنا چاہتا ہوں۔"
یہ مقصود ڈرائیور تھا جس نے صبح صبح اسے روک لیا تھا۔
"دیکھو!کوئی چھٹی کی بات نہیں،نہ تنخواہ بڑھے گی اور نہ فالتو پیسہ ملے گا۔"خرم نے ناگواری سے کہا۔
"نہیں صاحب!یہ بات نہیں،وہ میں مالکن کے بارے میں بات کرنا چاہتا تھا۔"مقصود نے ڈرتے ڈرتے کہا۔
"کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تمھاری ہمت کیسے ہوئی کہ تم مجھے کچھ سمجھاؤ،آئندہ میں ایسی بات نہ سنوں۔"خرم دل کے چور کو دباتا ہوا باہر نکل گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دن گزرتے گئے،گھر اس کے لئے سرائے تھا جہاں وہ صرف رات بسر کرنے آتا تھا۔نہ ماں کی بڑھتی عمراور کمزور صحت اسے نظر آتی تھی اور نہ ہی ان کی تنہائی کا خیال،وہ تو اپنی ہواؤں میں گم تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر ایک دن ماں کو بتائے بغیر وہ دوستوں کے ساتھ ناران کی سیر کو چلا گیا،گھر سے کالیں آتی رہیں لیکن وہ ان کو کاٹتا رہااور پھر موبائل ہی بند کردیا۔اس کے نزدیک یہ ایڈونچر تھا جسے وہ مکمل انجوائے کرنا چاہتا تھا۔
پلک جھپکتے ہی پندرہ دن گزر گئے،پیسے ختم ہورہے تھے اس لئے مجبوراً واپس لوٹنا پڑا۔
گھر داخل ہوتے ہی اپنے کمرے میں چلا گیا،کمرے میں لیٹے آدھا گھنٹا گزر گیا لیکن ماما حسبِ عادت اس سے ملنے اور ڈانٹ کھلانے اس کے کمرے میں نہ آئیں۔وہ حیران تھا،کچھ دیر ڈھیٹ بنا لیٹا رہا لیکن یہ خلافِ عادت بات برداشت نہ ہوسکی۔اٹھا اور کچن کی طرف بڑھالیکن ماما وہاں بھی نہ تھیں۔
"مقصود!مقصود! ماما کہاں ہیں؟"خرم نے اپنی بے چینی چھپاتے ہوئے پوچھا۔
"وہ صاحب جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مقصود پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع ہوگیا۔
"کیا ہوا بیوقوف آدمی؟"خرم نے اس کا کندھا ہلاتے ہوئے پوچھا۔
"وہ صاحب جی!میں نے آپ کو کچھ دن پہلے بیگم صاحبہ کی بات بتانے کی کوشش کی تھی لیکن آپ نے مجھے روک دیاتھا۔۔۔۔۔۔وہ بیگم صاحبہ کو بلڈ کینسر تشخیص ہوا تھا،اور ڈاکٹر نے کیمو تھراپی کروانے کا کہا تھا،آپ کو یہی بتانا تھا۔۔۔۔۔۔۔"
مقصود چپ ہوگیا۔
"ماما!کہاں ہیں؟ہسپتال میں؟"خرم نے ہذیانی کیفیت میں مقصود سے پوچھا۔
"نہیں صاحب جی!ان کا کینسر آخری سٹیج پر ہی پتہ چلاتھا،پھر آپ بتائے بغیر چلے گئے،بیگم صاحبہ کی طبیعت پریشانی میں زیادہ خراب ہوگئی،ہسپتال لے کر گئے لیکن وہ کیمو تھراپی سے پہلے ہی اللہ کو پیاری ہوگئیں،آپ کو موبائل پر کال ملاتے رہے لیکن آپ نے موبائل ہی بند کردیا،اس لئے مجبوراً ان کو دفنانا پڑا۔"مقصود نے روتے ہوئے کہا۔
اف میرے خدایا!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خرم زمین پر بیٹھتا چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اپنے ہاتھوں، اپنی جنت گنوا چکا تھا۔
ابھی بھی وقت ہے فیصلہ ہم نے خود کرنا ہے جو کھو گیا وہ واپس نہیں آسکتا لیکن جو پاس ہے اس کو سمبھال لیتے ہیں !

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں