بسم ﷲ الرحمٰن الرّحیم !
امام نور الدین سمہودی علیہ الرحمتہ قحط سالی میں اہلِ مدینہ کا عمل یوں بیاں کرتے ہیں !
" قحط اہل المدینتہ قطحاً شدیدا فشکو الیٰ عائشتہ رضیﷲعنہا فقالت فانظروا قبر النبی ﷺ فاجعلو کوتہً الی السمآء حتیٰ لا یکون بینہ و بین السمآء سقف , ففعلو فمطرو حتیٰ نبت العشب وسمنت الابل حتٰی تفتقت من الشحم فسمٰی عام الفتق "
وفاء الوفاء باخبار دارالمصطفیٰ
الجزء الثانی صفحہ٥٦٩
نورالدین علی بن احمد السمہودیؒ
{ متوفی ٩١١ ھجری }
یعنی اہل مدینہ سخت قحط سالی میں گرفتار ہوئے تو حضرت عائشہ رضیﷲعنہا کی خدمت میں شکایت کی انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ کی قبر انور دیکھو اور آسمان کی جانب اس میں سوراخ کردو درمیان میں کوئی چھت وغیرہ نہیں ہونی چاہیئے انہوں نے یونہی کیا چنانچہ بارش ہوگئی گھاس پھوس خوب اُگ آئی اور اونٹ موٹے ہوگئے اور گوشت سے بھر گئے چنانچہ اس سال کا نام "عام الفتق" پڑگیا
وفاء الوفاء (اردو)
حصہ دوم صفحہ 521
مطبوعہ ادارہ پیغام القران لاہور (پاکستان)
یہ روایت حدیث کی کتابوں میں بھی موجود ہے لیکن اس کی تخریج یا تصحیح مدعا نہیں
بلکہ اس کے بعد امام سمہودی فرماتے ہیں !
" وقال الزین المراغی واعلم ان فتح الکوّہ
عند الجدب سنتہ اہل المدینہ حتی الآن یفتحون کوّہ فی سفل قبتہ الحجرہ
ای القبتہ الزرقاء المقدسہ من جھتہ القبلہ وان کان السقف حائلاً بین القبر الشریف وبین السمآء "
یعنی علامہ زین مراغی کہتے ہیں کہ اہل مدینہ کی آج تک عادت چلی آتی ہے کہ قحط سالی کے موقع پر وہ سوراخ کھول دیتے ہیں وہ حجرہ کے قبۂ مبارکہ کے نیچے سوراخ کھولتے ہیں جو قبلہ کی طرف ہے اگرچہ قبر شریف اور آسمان کے درمیان (مسجد کی) چھت حائل ہوتی ہے!
لیجئے ! اس حدیث کی صحت پر اعتراض کرتے ہوئے واقعہ کا انکار کردینے والے حضرات کے لئے لمحۂ فکریہ ہے کہ اگر یہ واقعہ جو اوپر مذکور ہوا من گھڑت ہے علامہ زین کیونکر کہہ رہے ہیں کہ آج تک اہل مدینہ کا قحط سالی میں یہی عمل ہے؟
کسی بدنصیب کو یہاں پھر شیطانی خارش لاحق ہوسکتی ہے کہ جی کیا پتہ علامہ زین کون ہیں کہاں کے ہیں وغیرہ وغیرہ
لہذا اس سے بھی قطع نظر ہم خود مصنف کا ہی فرمان نقل کئے دیتے ہیں جو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر قلمبند فرما رہے ہیں !
"قلت ومنتھم الیوم فتح الباب المواجہ للوجہ الشریف من المقصورہ المحیطتہ بالحجرہ والاجتماع ھناک وﷲ اعلم"
وفاء الوفاء
الجزءالثانی صفحہ٥٦٠
میں بتاتا ہوں آج کل ان (اہل مدینہ) کا طریقہ یہ ہے کہ وہ اس دروازے کو کھولتے ہیں جو حجرے کے گرد مقصورہ شریف میں سے چہرۂ انور کے سامنے ہے اور وہاں اکٹھے ہوجاتے ہیں وﷲ اعلم
لیجئے ! یہاں مصنف خود ہی وضاحت فرما رہے ہیں اور اہل مدینہ کا (اس وقت کا) موجودہ طریقہ بتا رہے ہیں !
جب کہ امام سمہودی کی وفات 911 ھجری کو ہوئی ہے!
معلوم ہوا حضرت عائشہ رضیﷲعنہا کا بتلایا ہوا طریقہ ان کے زمانے سے لے کر دسویں صدی کے شروع تک (لازمی) رہا (اس کے بعد کا پتہ نہیں)
لہذا یہ امر اظہر من الشمس ہے کہ تقریباً نو سو سال تک جب بھی مدینے میں قحط سالی ہوتی تو اہلِ مدینہ حضور ﷺ کے دربار گوہر بار میں آتے اور آپ کے حجرۂ مبارکہ کا دروازہ یا سوراخ کھول دیتے اور آپ ﷺ کے وسیلۂ جلیلہ سے بارش طلب کرتے نہ صرف طلب کرتے بلکہ حضور علیہ السلام کے وسیلے سے ﷲ پاک کو خوش کر کے بارش حاصل بھی کرلیتے !
والحمدللہ رب العالمین !
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں